Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Qanoon Sab K Liye, Sarak Par Asal Insaf

Qanoon Sab K Liye, Sarak Par Asal Insaf

قانون سب کے لیے، سڑک پر اصل انصاف

کہتے ہیں کسی معاشرے کی تہذیب کا اندازہ اس کے چوراہوں سے لگایا جاتا ہے۔ وہاں جہاں ٹریفک سگنل کھڑا ہو، بتی سرخ ہو، سڑک خالی ہو اور پھر بھی کوئی گاڑی آگے نہ بڑھے، وہاں تہذیب سانس لیتی ہے۔ مگر جہاں سڑک بھی مصروف ہو، قانون کاغذوں میں ہو اور ڈرائیور کے ذہن میں یہ سوچ چل رہی ہو کہ "مجھے کون روکے گا؟"، وہاں ریاست کمزور ہوتی ہے، قانون بے بس اور معاشرہ تھکا ہوا۔ پنجاب حکومت نے آج ٹریفک قوانین میں سخت ترامیم اور بھاری جرمانوں کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ برسوں سے پھیلتی ہوئی اسی بے ترتیبی کے خلاف ایک مضبوط قدم ہے۔

پاکستان میں مسئلہ قانون کی کمی نہیں، اُس کے اطلاق کے دوہرے معیار ہیں۔ عام شہری ٹنٹڈ شیشوں، حدِ رفتار یا سگنل توڑنے پر جرمانہ بھرتا ہے، مگر وہ لوگ جو اپنی نجی گاڑیوں پر "MPA"، "MNA"، "Advocate"، "Press"، "Police" جیسے غیر سرکاری اور غیر قانونی ٹیگ لگا کر گھومتے ہیں، اکثر پولیس کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ ان پلیٹس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ پولیس گاڑی نہ روکے اور ڈرائیور یہ محسوس کرے کہ وہ قانون سے اوپر ہے۔ یہ رویہ ریاست کے اختیار کو کمزور کرتا ہے اور قانون کے تقدس کو مجروح کرتا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے یہی مسئلہ برسوں پہلے حل کر لیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک مشہور بزنس مین اینڈرس وکلؤف کو تیز رفتاری پر ایک لاکھ یورو سے زائد جرمانہ کیا گیا۔ نہ اس کا اثر دیکھا گیا، نہ دولت، نہ شناخت، صرف خلاف ورزی دیکھی گئی۔ سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور سویڈن میں بھی "آمدنی پر مبنی جرمانے" نافذ ہیں، تاکہ امیر آدمی بھی قانون کو مذاق نہ سمجھے۔ قانون کی اصل روح یہی ہے کہ خلاف ورزی کرنے والا چاہے عام مزدور ہو یا ارب پتی، سزا ایک جیسی محسوس ہو۔

برطانیہ میں عالمی شہرت یافتہ فٹبالر ریو فرڈیننڈ بارہا اوور اسپیڈنگ پر جرمانے اور لائسنس پوائنٹس کا سامنا کر چکے ہیں۔ وہاں گاڑی پر لکھے الفاظ نہیں دیکھے جاتے، صرف رفتار دیکھی جاتی ہے۔ قانون شخصیت نہیں، خلاف ورزی دیکھتا ہے۔

امریکہ میں ٹریفک قوانین کے نفاذ کا عالم یہ ہے کہ جعلی یا غیر قانونی نمبر پلیٹ لگانا سنگین جرم ہے۔ گاڑی فوراً روکی جاتی ہے، ضبط ہوتی ہے اور اکثر اوقات ڈرائیور گرفتار کیا جاتا ہے۔ وہاں "میں پریس ہوں" یا "میں وکیل ہوں" کہنا کوئی تحفظ نہیں دیتا۔

اسی امریکہ میں دو بڑے واقعات نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ قانون مشہور شخصیات کے لیے بھی نہیں بدلتا۔

جسٹن بیبر، 2014ء میں فلوریڈا میں انہیں DUI، غیر درست لائسنس اور سگنل توڑنے پر گرفتار کیا گیا۔ عالمی شہرت کے باوجود انہیں نہ رعایت ملی نہ بچاؤ۔ انہوں نے عدالت کے احکامات، جرمانے، تربیتی پروگرام اور کمیونٹی سروس مکمل کی۔

ٹائیگر وُوڈز، 2017ء میں فلوریڈا میں دوائیں لینے کے اثر میں گاڑی میں ملنے کے بعد گرفتار ہوئے۔ ان کی شہرت، دولت یا مقام کسی نے انہیں نہ بچایا۔ انہیں بھی جرمانہ، پروبیشن اور لازمی اصلاحی پروگرام سے گزرنا پڑا۔

یہ وہ مثالیں ہیں جن کی بنیاد پر مغربی معاشرے منظم ہیں اور یہی ہماری سڑکوں کے لیے سب سے بڑی درسگاہ ہے۔

پنجاب حکومت کے فیصلے یقیناََ قابلِ تحسین ہیں، مگر ان کی اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب ایسی تمام جعلی اور خودساختہ پلیٹس پر مکمل پابندی ہو۔ پولیس کو واضح حکم ہو کہ وہ ایسی ہر گاڑی کو روکے، باز پرس کرے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کرے۔ جب تک VIP کلچر ختم نہیں ہوتا، ٹریفک قوانین صرف کمزور طبقے پر لاگو ہوتے رہیں گے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ سڑکوں پر نظم قائم ہو، حادثات کم ہوں اور قانون کی عزت بڑھے، تو ریاست کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ایک مضبوط ریاست وہ ہے جہاں سڑک پر کھڑا سپاہی کسی بھی گاڑی کو روک کر یہ کہہ سکے:

"سر، قانون سب کے لیے ایک ہے، برائے مہربانی گاڑی روکیں"۔

جس دن یہ جملہ ہماری سڑکوں پر عام ہوگیا، سمجھ لیجیے پاکستان نے انصاف کی طرف پہلا بڑا قدم رکھ لیا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam