Oxygen Ka Zamana
آکسیجن کا زمانہ

کبھی لاہور کو "باغوں کا شہر" کہا جاتا تھا۔ مال روڈ پر جب بہار آتی تو پھولوں کی خوشبو یوں پھیلتی تھی جیسے پورا شہر عطر میں نہا گیا ہو۔ اب یہی لاہور جب صبح بیدار ہوتا ہے تو سورج نہیں نکلتا، بس دھند جیسا ایک زہر آلود بادل آسمان پر چھا جاتا ہے۔ نہ وہ نیلا آسمان رہا، نہ وہ صاف فضا، بس آنکھوں میں چبھتی ہوئی دھند، گلے میں جلتی راکھ اور سانسوں میں زہر۔ یہ ہے آج کا لاہور، جو کبھی سانس دیتا تھا، اب سانس لیتا ہے۔
چند دن پہلے پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے ایک پریس کانفرنس کی۔ ہاتھ میں آکسیجن ماسک اور سلنڈر اٹھا کر انہوں نے کہا: "اب آپ کو یہ گھر میں ایسے ہی رکھنا ہوگا جیسے برتن رکھتے ہیں"۔ لمحہ بھر کو لگا جیسے وہ کسی ماحولیاتی اجلاس میں نہیں، بلکہ کسی اسپتال کے وارڈ میں کھڑی ہیں۔ ان کی بات میں دکھ بھی تھا اور بے بسی بھی۔ مگر سوال یہ ہے، حکومت کا کام عوام کو آکسیجن سلنڈر دکھانا ہے یا فضا سے زہر ختم کرنا؟ حکومت کا کام رونا پیٹنا نہیں ہوتا، حکومت کا کام حل نکالنا ہوتا ہے۔
لاہور آج کسی بیمار کے پھیپھڑوں جیسا ہے۔ درخت بے دردی سے کاٹے گئے، گاڑیاں دن رات دھواں اگل رہی ہیں، بھٹّے جل رہے ہیں اور کسان کھیتوں میں باقیات کو آگ لگا کر آسمان میں دھواں چھوڑ رہے ہیں۔ فضا میں یہ زہر ہم سب کے گناہوں کی قیمت بن چکا ہے۔ ہم نے زمین سے جو چھینا، اب وہی فضا ہم سے چھین رہی ہے۔
یورپ کے کئی ممالک بھی کبھی اس عذاب سے گزر چکے ہیں۔ 1952ء میں لندن میں "گریٹ اسموگ" آیا، صرف ایک ہفتے میں بارہ ہزار لوگ دم گھٹنے سے مر گئے۔ مگر اس کے بعد برطانیہ نے آنکھیں کھولیں، قانون بنایا، "کلین ایئر ایکٹ"، جس کے تحت کوئلے کے استعمال پر پابندی لگی، فیکٹریوں کے اخراج پر سخت نگرانی شروع ہوئی اور درخت لگانے کے منصوبے بنائے گئے۔ آج لندن کا آسمان صاف ہے، دریا ٹیمز کے کنارے چلنے والے لوگ فخر سے سانس لیتے ہیں۔
جرمنی نے بھی اپنی صنعتوں کو ماحولیاتی ذمہ داریوں سے باندھ دیا۔ وہاں اگر کوئی کمپنی کاربن اخراج کی حد سے تجاوز کرے تو اربوں یورو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی جرمنی میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے پاس زرعی زمین ہے تو آپ کو اس کا ایک حصہ جنگل اگانے کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے اور آپ اس جنگل کو کاٹ نہیں سکتے۔ سویڈن نے اپنے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مکمل طور پر الیکٹرک بنا دیا ہے۔ نیدرلینڈز نے شہریوں کو سائیکل استعمال کرنے پر ترغیب دی، آج وہاں سائیکلوں کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہے۔ یورپ نے سیکھ لیا کہ فضا کو تقریروں سے نہیں، قوانین سے صاف کیا جاتا ہے۔
بھوٹان کی مثال بھی دنیا کے لیے سبق ہے۔ ایک چھوٹا سا ملک، مگر ماحولیات کے معاملے میں سب سے آگے۔ بھوٹان نے دنیا کا سب سے مہنگا ٹورسٹ ویزہ رکھا ہے، ایک دن کا 200 ڈالر۔ لیکن وہ پیسہ حکومت عوام پر نہیں، فطرت پر خرچ کرتی ہے۔ درخت لگائے جاتے ہیں، پہاڑوں کو سرسبز رکھا جاتا ہے، جنگلات محفوظ کیے جاتے ہیں۔ آج بھوٹان واحد ملک ہے جو کاربن نیگیٹو ہے، یعنی جتنی آلودگی دنیا کو دیتا ہے، اس سے زیادہ صاف آکسیجن واپس کرتا ہے۔
ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ آلودگی کے خلاف محض بیانات نہ دے بلکہ قدم اٹھائے۔ کسانوں کو کھیتوں کی باقیات جلانے کے بجائے انہیں ضائع کرنے کے متبادل طریقے دے۔ فیکٹریوں اور بھٹّوں کے اخراج پر سخت پابندی عائد کرے۔ عوام کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں درخت لگائیں۔ درخت کاٹنے کو جرم قرار دیا جائے اور اس جرم کی سزا اتنی سخت ہو کہ کوئی دوبارہ ایسا نہ کرے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب درخت مرتے ہیں تو شہر سانس لینا چھوڑ دیتے ہیں۔
مریم اورنگزیب سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جنہوں نے لاہور کو زہریلا بنایا، ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کتنے بھٹے بند کیے گئے؟ کتنے فیکٹری مالکان کو جرمانہ ہوا؟ کتنے افسران معطل ہوئے؟ اگر ان سوالوں کا جواب صفر ہے تو ماسک دکھانا بھی لاحاصل ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اپنی ناکامی کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالتی، وہ اسے حل کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلے پر پریس کانفرنس ہوتی ہے، حل پر خاموشی۔ اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ لوگ آکسیجن سلنڈر گھروں میں نہ رکھیں، تو حکومت کو چاہیے کہ پہلے درخت گھروں کے باہر لگائے۔
کیونکہ ایک درخت دس انسانوں کے لیے آکسیجن پیدا کرتا ہے اور ایک انسان کی لاپرواہی دس درختوں کو مار دیتی ہے۔ یورپ نے قانون سے فضا صاف کی، بھوٹان نے شعور سے اور ہم اب بھی ماسک کے زمانے میں ہیں۔ لیکن سچ یہی ہے، اگر آج لاہور نے درخت نہ اگائے تو کل لاہور کے بچے آکسیجن خریدنے کی قطار میں کھڑے ہوں گے۔

