Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Notification Ki Takheer: Qaumi Salamati Ka Khatra

Notification Ki Takheer: Qaumi Salamati Ka Khatra

نوٹیفیکیشن کی تاخیر: قومی سلامتی کا خطرہ

کہتے ہیں بعض اوقات ایک ملک کی تقدیر توپوں سے نہیں بدلتی، بلکہ ایک ایسے فیصلے سے بدلتی ہے جو چند منٹ تاخیر کا شکار ہو جائے۔

11 ستمبر 2001ء کی صبح امریکہ پر حملہ ہوا۔ پہلا جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا تو صدر بش کلاس روم میں بیٹھے تھے۔ فوجی قیادت، ائیر کمانڈ اور وائٹ ہاؤس کے درمیان اگلے 13 منٹ تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ ملک پر حملہ "حادثہ" ہے یا "جنگ" اور ان 13 منٹوں کی تاخیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرا جہاز ٹاور سے ٹکرا گیا۔

پینٹاگون پر حملہ ہوا، چوتھا طیارہ پنسلوانیا میں گرا اور دنیا کی سب سے بڑی اسٹیٹ، صرف ایک فیصلے کی تاخیر کی قیمت چکاتی رہی۔

امریکی سینیٹ کی 9/11 انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صاف لکھا:

"If key decisions were made minutes earlier، the scale of destruction could be smaller. "

(اگر اہم فیصلے چند منٹ پہلے ہو جاتے تو تباہی کم ہو سکتی تھی۔)

تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے: ریاستیں کبھی کبھی منٹوں میں ہار جاتی ہیں، تاخیر میں نہیں جیت ہوتیں اور یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ 27 نومبر کو پاکستان بھی ایک اہم موڑ پر کھڑا تھا۔

پاکستان کے آخری چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل ساحر شمشاد مرزا ریٹائر ہو گئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی CJCSC کا عہدہ ختم ہوگیا، وہ عہدہ جو جنگ کے دوران تینوں افواج کی مشترکہ کمانڈ کا دماغ ہوتا تھا۔ یہ وہی عہدہ ہے جو کارگل کے دوران سروسز کے درمیان رابطے کا محور تھا۔

سوات آپریشن، فاٹا کلیئرنس، 2019ء کی بالاکوٹ جھڑپ، ہر موقع پر CJCSC کا ادارہ تینوں فورسز کو ایک میز پر بٹھا کر فیصلہ دیتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ تاریخ نے پہیہ بدل دیا۔

حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے CJCSC کو ختم کیا اور اس کی جگہ نیا عہدہ "Chief of Defence Forces، CDF" تخلیق کیا اور اعلان کیا کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اس نئے عہدے کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ یہاں تک سب کچھ آئین کے مطابق تھا۔

مسئلہ وہاں پیدا ہوا جہاں ریاستیں کمزور ہو جاتی ہیں: بروقت فیصلے میں تاخیر۔ CDF کا نوٹیفیکیشن وزیراعظم کی بیرونِ ملک موجودگی کی وجہ سے جاری نہ ہو سکا۔ ملک کی سب سے اہم عسکری کمان، جو تینوں فورسز کی نئی تشکیل کے لیے بنائی گئی تھی، اس کا نوٹیفیکیشن محض اس لیے لٹکا رہا کہ وزیراعم دستیاب نہیں تھے۔

اور پھر قوم نے وہی منظر دیکھا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے:

افواہیں، تجزیے، غلط معلومات، سوشل میڈیا کی آگ اور ایسے ماحول میں قوم کے اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر حنیف عباسی نے فرمایا: "نوٹیفیکیشن ہماری مرضی کے مطابق ہوگا، جب چاہیں جاری کر دیں گے"۔

سر، گزارش یہ ہے یہ ریلوے کی گاڑی نہیں کہ آج چلائیں یا کل روک دیں، یہ قوم کی دفاعی کمانڈ کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس میں مرضی نہیں چلتی، آئین چلتا ہے، قانون چلتا ہے، ریاست کی ذمہ داری چلتی ہے۔

یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ایسے وقت میں نوٹیفیکیشن تاخیر کا شکار ہوا جب حالات پہلے ہی نازک تھے۔ بھارت ابھی حال ہی میں جارحیت دکھا کر پیچھے ہٹا ہے۔ اس کی فوج سرحدوں پر اب بھی غیر معمولی سرگرم ہے۔ افغانستان سے تعلقات ایک بار پھر کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ایسے ماحول میں دفاعی ڈھانچے کا "نیا سربراہ" کاغذی طور پر موجود نہ ہو یہ صرف غفلت نہیں، اسٹرٹیجک رسک ہے۔ اسی خلا کی وجہ سے ایک اور افواہ مشہور ہوگئی کہ شاید فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت پوری ہو چکی ہے۔

حالانکہ قانون بالکل واضح ہے انہوں نے 29 نومبر 2022ء کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ 2024ء میں حکومت نے آرمی چیف کی مدت 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی۔ لہٰذا ان کی مدت 29 نومبر 2027ء کو مکمل ہوگی۔ نوٹیفیکیشن کی تاخیر نے بس غیر ضروری ابہام پیدا کیا۔

دنیا میں جب فوجی قیادت بدلتی ہے تو ریاستیں شفاف ہوتی ہیں، تاخیر نہیں کرتیں۔ برطانیہ میں Chief of Defence Staff کا اعلان اسی دن ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں Joint Chiefs کے چیئرمین کی تبدیلی پر پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس دونوں باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہیں۔ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ہر جگہ طریقہ ایک ہے: "Transparency enhances national security. "لیکن ہمارے ہاں معاملہ خواہ اعلان کا ہو یا عمل کا۔

بدقسمتی سے شفافیت ہمیشہ آخری نمبر پر کھڑی ہوتی ہے۔ ریاستیں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جیتتیں، فیصلوں کی بروقتی سے جیتتیں ہیں۔ عہدے کاغذ سے نہیں، نوٹیفیکیشن سے طاقت پکڑتے ہیں اور قومی سلامتی سیاست کے بیانات پر نہیں آئینی عمل پر کھڑی ہوتی ہے۔

امید ہے حکومت اس بار تاریخ سے سیکھے گی کیونکہ دشمن ہماری سرحدوں کو جس سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔ ریاست کو اپنی فیصلے اتنی ہی سنجیدگی سے کرنا ہوں گے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz