Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Naqab, Hath Aur Iqtidar

Naqab, Hath Aur Iqtidar

نقاب، ہاتھ اور اقتدار

اقتدار بعض اوقات انسان کو بے نقاب کر دیتا ہے، مگر کبھی کبھی اقتدار دوسروں کے نقاب بھی نوچ لیتا ہے۔ پٹنہ میں پیش آنے والا واقعہ بظاہر چند سیکنڈز پر محیط تھا، مگر اس نے بھارت کی سیاست، سماج اور اقلیتوں کے مستقبل پر صدیوں پرانا سوال پھر زندہ کر دیا۔ بہار کے وزیرِاعلیٰ نتیش کمار ایک سرکاری تقریب میں کھڑے تھے، سامنے نوجوان خاتون آیوش (AYUSH) ڈاکٹر نصرت پروین موجود تھیں، جنہوں نے نقاب اوڑھ رکھا تھا۔ مسلمان خاتون ڈاکٹر جب اپنا تقرر نامہ لینے وزیر اعلٰی کے سامنے گئیں تو اچانک اقتدار نے ہاتھ بڑھایا اور وہ ہاتھ ایک خاتون کے چہرے تک جا پہنچا۔ نقاب کھینچا گیا، لمحہ قید ہوگیا اور بھارت کا چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے آ گیا۔

یہ محض ایک شخص کی غیر محتاط حرکت نہیں تھی، یہ ایک سوچ کی نمائندگی تھی۔ وہ سوچ جو یہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہب، شناخت اور عزتِ نفس کو سرِعام چیلنج کرے۔ سوال یہ نہیں کہ نقاب کیوں پہنا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ کسی مرد، کسی وزیرِاعلیٰ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ایک خاتون کے ذاتی انتخاب کو عوامی تماشہ بنا دے؟

پٹنہ محض ایک شہر نہیں، یہ تاریخ کا گہوارہ ہے۔ یہ وہی پٹنہ ہے جو کبھی پٹلی پتر کہلاتا تھا، جہاں موریہ سلطنت نے جنم لیا، اشوکِ اعظم نے حکومت کی اور بدھ مت نے فلسفے کی صورت دنیا کو متاثر کیا۔ بعد ازاں یہی خطہ مسلم حکمرانی کا مرکز بھی بنا۔ دہلی سلطنت سے لے کر مغلیہ عہد تک، بہار علم، تہذیب اور عدل کا استعارہ رہا۔ شیر شاہ سوری، جو ہندوستان کے عظیم ترین منتظمین میں شمار ہوتا ہے، اسی مٹی کا بیٹا تھا۔ اس نے سڑکیں بنائیں، نظام قائم کیا اور رعایا کو ریاست کا مرکز بنایا۔ یہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بہار کی شناخت کبھی تنگ نظری نہیں رہی۔

لیکن تاریخ جب حال سے کٹ جائے تو ماضی بوجھ بن جاتا ہے۔ آج بہار کی سیاست نتیش کمار جیسے کردار کے گرد گھومتی ہے۔ نتیش کمار کوئی نیا نام نہیں۔ وہ طالب علمی سے سیاست میں آئے، جے پرکاش نارائن کی تحریک کے سائے میں پروان چڑھے، لوک سبھا کے رکن بنے، مرکزی وزیر رہے اور دو دہائیوں سے بہار کے اقتدار میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ وہ کبھی سیکولرزم کے علَم بردار بنے، کبھی ہندو قوم پرستوں کے اتحادی اور کبھی دونوں کے درمیان معلق سیاست کا نمونہ۔

یہی سیاسی دوغلاپن آج بہار کے چہرے پر نظر آتا ہے۔ نتیش کمار کا مسئلہ یہ نہیں کہ انہوں نے ایک نقاب کھینچا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس ذہنیت کے اسیر ہو چکے ہیں جو مسلمان کو شہری نہیں، سوال سمجھتی ہے۔ بھارت میں مسلمان ہونا اب عبادت نہیں، وضاحت مانگتا ہے۔ داڑھی شک کی علامت ہے، نقاب خطرہ اور نام شناختی مسئلہ۔

نریندر مودی کے بھارت میں یہ رویہ ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کبھی گائے کے نام پر ہجوم انصاف کرتا ہے، کبھی مسجد کے نام پر سیاست چمکتی ہے اور کبھی یونیورسٹیوں میں مسلمان طلبہ کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے پڑتے ہیں۔ دہلی کے فسادات ہوں، حجاب پر پابندیاں ہوں، یا بلڈوزر کی سیاست، ہر واقعہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اکثریت کی مرضی ہی قانون ہے۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہی حرکت کسی مغربی ملک میں کسی مسلمان خاتون کے ساتھ کی جاتی، تو کیا ردِعمل ہوتا؟ فرانس میں نقاب پر پابندی لگی، مگر کسی صدر یا وزیر نے کسی خاتون کا نقاب خود نہیں نوچا۔ امریکا میں حجاب پہننے والی خواتین کو مسائل کا سامنا ہے، مگر ریاستی طاقت اس حد تک برہنہ نہیں ہوئی کہ وہ سرِعام ہاتھ بڑھائے۔ بھارت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون خاموش اور اقتدار بے باک ہو چکا ہے۔

مسلم خواتین اس سیاست کی سب سے آسان شکار ہیں۔ وہ بیک وقت عورت بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ ان کا لباس، ان کی آواز، ان کی خاموشی، سب سیاسی بیان بن چکے ہیں۔ نتیش کمار کا ہاتھ دراصل اسی ریاستی جبر کا تسلسل تھا جسے معاشرہ آہستہ آہستہ قبول کر رہا ہے۔

پٹنہ کی سرزمین یہ سب دیکھ رہی ہے۔ وہی پٹنہ جس نے خانقاہوں کی اذانیں بھی سنیں اور مندروں کی گھنٹیاں بھی۔ وہی بہار جس نے مشترکہ تہذیب کو جنم دیا، آج تقسیم در تقسیم کی سیاست میں الجھ چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے، جب ریاستیں شناختوں سے لڑتی ہیں تو ترقی رک جاتی ہے اور نفرت کو وراثت بنا دیا جاتا ہے۔

نتیش کمار اگر واقعی خود کو سیکولر کہتے ہیں تو انہیں صرف وضاحت نہیں، معافی مانگنی چاہیے اور وہ بھی صرف ایک خاتون سے نہیں، بلکہ اس پورے معاشرے سے جس کی عزت کو انہوں نے لمحوں میں مجروح کر دیا۔ نریندر مودی کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ اقتدار کی خاموشی بھی جرم ہوتی ہے۔ جب وزیراعظم ایسے واقعات پر خاموش رہتا ہے تو یہ خاموشی اجازت بن جاتی ہے۔

آخر میں سوال وہی ہے جو تاریخ ہم سے بار بار پوچھتی ہے:

کیا ریاست شہریوں کی محافظ ہے یا ان کی نگران؟

اگر نقاب کھینچنا اقتدار کی علامت بن گیا تو کل شاید زبانیں کھینچی جائیں گی اور پرسوں سوچیں۔

قومیں اسی لمحے ٹوٹتی ہیں، جب وہ ذلت کو معمول سمجھ لیتی ہیں۔

بہار کی تاریخ اس واقعے سے کہیں بڑی ہے، کہیں زیادہ باوقار ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں صدیوں تک مسلمان حکمرانوں نے صرف حکومت نہیں کی، تہذیب تراشی۔ بنگال اور دہلی کے درمیان واقع اس سرزمین نے مدرسے بھی دیکھے، خانقاہیں بھی اور وہ بازار بھی جہاں ہندو اور مسلمان ایک ہی ترازو میں تولے جاتے تھے۔ پٹنہ میں مغل دور کے آثار ہوں یا شیر شاہ سوری کی یادگاریں، یہ سب اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ زمین نفرت کی نہیں، اشتراک کی پیداوار ہے۔ یہاں اسلام تلوار سے نہیں، عدل، علم اور کردار سے پھیلا۔

لیکن تاریخ جب سیاست کے ہاتھ لگ جائے تو ورثہ الزام بن جاتا ہے۔ آج مودی کے بھارت میں مسلمان ہونا ایک صفائی نامہ مانگتا ہے۔ انہیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ وہ کہاں تک وفادار ہیں، کہاں تک قابلِ قبول۔ کبھی شہریت کے قانون کے ذریعے، کبھی عبادت گاہوں کے تنازعے سے اور کبھی لباس کے سوال پر۔ یہ سب حادثات نہیں، یہ ایک منظم سوچ کا نتیجہ ہیں، وہ سوچ جو اکثریت کو طاقت اور اقلیت کو مسئلہ سمجھتی ہے۔

نتیش کمار کا ہاتھ اسی سوچ کا ایک علامتی اظہار تھا۔ وہ ہاتھ اگرچہ بہار کے وزیرِاعلیٰ کا تھا، مگر اس کے پیچھے دہلی کی خاموش تائید کھڑی تھی۔ نریندر مودی کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ نفرت کو زبان نہیں دیتی، فضا بنا دیتی ہے اور جب فضا بدل جائے تو کسی کو ہاتھ بڑھانے کے لیے حکم نامے کی ضرورت نہیں رہتی۔

یہ سوال اب صرف ایک نقاب کا نہیں رہا، یہ سوال ہندوستان کے آئینی وعدے کا ہے۔ وہ وعدہ جو کہتا تھا کہ ریاست کسی مذہب، کسی نسل، کسی لباس کے خلاف نہیں ہوگی۔ جب ریاست خود سوال بن جائے تو جواب سڑکوں پر تلاش کیے جاتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے، یہ راستہ ہمیشہ نقصان پر ختم ہوتا ہے۔

Check Also

Naqab, Hath Aur Iqtidar

By Muhammad Umar Shahzad