Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Mulaqat, Zaroorat Ya Majboori?

Mulaqat, Zaroorat Ya Majboori?

ملاقات، ضرورت یا مجبوری؟

1951ء میں لیاقت علی خان راولپنڈی کے کمپنی باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ وہی جلسہ جہاں ایک گولی نے ملک کے پہلے وزیراعظم کی جان لے لی۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے ایک حقیقت سامنے آئی، حکومت اور اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان۔ فیصلہ ساز ایک صفحے پر نہیں تھے اور اسی خلا نے سازشوں کو جنم دیا۔

تاریخ ہمیں بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ جہاں ریاستی ادارے اور حکومتیں ایک دوسرے سے کٹ جائیں، وہاں دشمن اپنے راستے خود بنا لیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری سے ملاقات بھی اسی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئینی پروٹوکول اور روایتی لحاظ سے کس کو کس کے پاس جانا چاہیے؟ کیا کور کمانڈر کو وزیراعلیٰ کے پاس آنا چاہیے، یا وزیراعلیٰ کو کور کمانڈر کے دفتر جانا چاہیے؟

قانونی لحاظ سے دیکھا جائے تو صوبائی حکومت اور فوج دونوں ریاست کے ادارے ہیں۔ وزیراعلیٰ ایک منتخب نمائندہ ہیں اور کور کمانڈر وفاقی حکومت کے ماتحت عسکری نمائندہ۔ پروٹوکول کے لحاظ سے سول حکومت بالادست ہوتی ہے، اس لیے اصولاً کور کمانڈر کو وزیراعلیٰ کے پاس آنا چاہیے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں اکثر "جگہ" سے زیادہ "حالات" کی وجہ سے اہم ہوتی ہیں۔ اگر صوبے میں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہو، دہشت گردی بڑھ رہی ہو اور روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز شہادتیں دے رہی ہوں، تو ملاقات کی جگہ اہم نہیں رہتی، مقصد اہم ہو جاتا ہے۔

خیبر پختونخواہ اس وقت پاکستان کا سب سے حساس صوبہ ہے۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں دوبارہ بڑھ رہی ہیں اور کئی رپورٹس کے مطابق افغانستان کی زمین سے ان گروہوں کو سہولتیں دی جا رہی ہیں۔

افواجِ پاکستان ان کے خلاف مسلسل آپریشن کر رہی ہیں اور یہی وہ پس منظر ہے جس میں سہیل آفریدی اور کور کمانڈر پشاور کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات صرف ایک رسمی تصویر یا رسمی ہاتھ ملانے کا موقع نہیں، بلکہ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھنے کی کوشش ہے۔

تاہم، اس ملاقات کے بعد ایک اور بحث چھڑ گئی۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا "کور کمانڈر پشاور مجھے مبارک باد دینے آئے تھے، میں ایک منتخب وزیراعلیٰ ہوں، تمام اعلیٰ افسران کا فرض ہے کہ وہ مجھے بریفنگ دیں"۔

یہ بیان جہاں ایک طرف سول بالادستی کا اظہار سمجھا گیا۔ وہیں دوسری طرف اس نے سیاسی سوالات کو جنم دے دیا۔ خاص طور پر جب یہی وزیراعلیٰ عمران خان سے ملاقات کے بغیر اپنی کابینہ بنانے کے لیے تیار نہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات بغیر خان کی اجازت کے کر لی۔ وفاقی حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کے لیے بے قراریاں۔

یہ تضاد ہی دراصل تحریک انصاف کی سیاست کا چہرہ عیاں کرتا ہے۔ جہاں اصول، بیانیہ اور عمل تینوں الگ سمتوں میں چلتے ہیں۔ تحریک انصاف کی سیاست اس وقت ایک دلچسپ تضاد میں گرفتار ہے۔ یہ جماعت ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتی ہے۔

دوسری طرف جب بھی کسی سطح پر رابطے یا ملاقات کا امکان پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ تیار نظر آتے ہیں۔ پھر اس ملاقات کو سوشل میڈیا پر مختلف جوازوں سے "ڈیفینڈ" کیا جاتا ہے۔ جیسے اب وزیراعلیٰ کی کور کمانڈر سے ملاقات کو یہ کہہ کر ڈیفینڈ کیا جا رہا ہے کہ "یہ صوبے کے امن کے لیے تھی، سیاست کے لیے نہیں"۔

مگر سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ بحال ہو۔ یہی وہ سیاست ہے جس نے ملک کو تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ جہاں ہر جماعت اپنے لیے رعایت چاہتی ہے مگر اداروں کے دائرہ کار کا احترام نہیں کرتی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اختلاف اپنی جگہ، مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ رہنا چاہیے۔ اسی طرح حکومتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان بھی ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رہنی چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو نقصان صرف کسی جماعت یا ادارے کا نہیں، پورے ملک کا ہوگا۔

آج خیبر پختونخواہ وہ صوبہ ہے جو دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ فوجی جوان اپنی جانیں دے رہے ہیں تاکہ شہری محفوظ رہیں۔ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں تو شاید حالات اس نہج پر پہنچ جاتے کہ وزیراعلیٰ کا بھی اپنے دفتر سے باہر نکلنا ممکن نہ رہتا۔ لہٰذا اس ملاقات کو سیاسی عینک سے نہیں بلکہ ریاستی ذمہ داری کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

کبھی کبھی ملاقاتیں شخصیات کے درمیان نہیں ہوتیں، بلکہ اداروں کے درمیان ہوتی ہیں اور یہی ملاقاتیں ریاستوں کو بکھرنے سے بچاتی ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari