Kal Ka Ghaddar Aak Ka Quaid
کل کا "غدار" آج کا "قائد"

کہتے ہیں سیاست میں دو چیزیں مستقل نہیں ہوتیں، دوستی اور دشمنی۔ بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک بار کہا تھا: "سیاست دان صبح اخبار پڑھتا ہے تو اسے سب سے پہلا جھوٹ یہ ملتا ہے کہ اس نے کل کس کی تعریف کی اور آج کس سے دشمنی ختم کر لی"۔ وزیروں نے ان کی بات مذاق میں اڑا دی، مگر واجپائی نے سنجیدگی سے کہا: "اصول اگر بدل جائیں تو سیاست کمزور ہوتی ہے، لیکن اگر کردار بدل جائے تو سیاستدان کمزور ہو جاتا ہے"۔
اسی بات کی ایک مثال بھارتی سیاست میں اُس وقت سامنے آئی جب اندرا گاندھی نے Emergency کے دوران کئی رہنماؤں کو قید کیا اور چند سال بعد انہی میں سے بعض کو اپنی سب سے بڑی سیاسی ضرورت کے طور پر استعمال کیا۔ کل کے مخالف آج کے اتحادی بن گئے اور عوام صرف یہ سب کچھ دیکھتی رہ گئی۔ دنیا کی سیاست میں ایسی مثالیں کم نہیں۔ 1990ء کی دہائی میں نیلسن منڈیلا نے انہی سفید فام رہنماؤں کے ساتھ حکومت بنائی جنہوں نے انہیں 27 سال قید میں رکھا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ منڈیلا نے اسے قومی مفاہمت کہا، جبکہ برصغیر میں اکثر ایسے اتحاد ذاتی مفاد یا سیاسی ضرورت کے تابع ہوتے ہیں۔
آج پاکستان کی سیاست میں بھی یہی منظر نظر آ رہا ہے۔ کل کے الزامات، آج کے اعلانات، کل کی گالیاں، آج کی قیادت اور کل کے "غدار"، آج کے "جمہوریت پسند رہنما"۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ محمود خان اچکزئی کی سیاست میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
محمود خان اچکزئی اُن چند سیاستدانوں میں سے ہیں جو اپنے اصولوں اور موقف پر مستقل قائم رہتے ہیں۔ وہ اٹھارویں ترمیم کے حامی، صوبوں کے حقوق کے داعی اور فوج کے سیاسی کردار کے مستقل مخالف ہیں۔ وہ یہ بات کسی بند کمرے میں نہیں کہتے، بلکہ اسمبلی سمیت ہر فورم پر کھل کر آواز اٹھاتے ہیں۔ آج تک ان پر نہ کرپشن کا الزام لگا، نہ کوئی کیس، نہ کوئی خوردبرد اور نہ ہی کوئی خفیہ معاہدہ۔ وہ جو بات درست سمجھتے ہیں، اسے کہنے سے کبھی نہیں ہچکچاتے۔
لیکن حیرت کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب وہی اچکزئی، جنہیں کل تک جلسوں میں "غدار"، "بے شرم انسان" اور مختلف مواقع پر طنز کے نشانے پر رکھا گیا، آج پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما بن کر ابھرے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر جس انداز میں ان کی تعریف کر رہے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے برسوں سے وہ انہی کے زیرِ تربیت ہیں۔ کل کے نعرے، جلسوں میں طنز اور ہتک آمیز باتیں بھلا دی گئی ہیں۔
یہاں عمران خان کی سیاسی تاریخ بھی یاد آتی ہے۔ وہی عمران خان جنہوں نے 2012ء میں نواز شریف کو "کرپشن کا باپ" کہا، 2014ء میں "ڈاکوؤں کا سردار"، 2017ء میں "مرضی کے نظام کا ٹھیکیدار" اور پھر 2022ء میں اسی نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے ساتھ قومی حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کی کوششیں۔ یہی عمران خان تھے جنہوں نے کل چوہدری برادران کو "سب سے بڑے ڈاکو" کہا، مگر پھر انہی کو اتحادی بنا کر وزارتِ اعلیٰ دی۔ آج وہی تاریخ محمود خان اچکزئی کے معاملے میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔
اور پھر وہی عمران خان، جنہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اچکزئی کو غدار کہا، ان کا مذاق اڑایا، جلسوں میں سر پر چادر ڈال کر ان کی نقل اتاری، جلسوں میں انہیں بے شرم کہا آج انہیں قومی اسمبلی میں اپنا اپوزیشن لیڈر نامزد کر رہے ہیں۔ یہ یوٹرن نہیں، بلکہ پوری سیاست کا جُملہ بدلنا ہے۔
حیرت انگیز منظر اس وقت مزید دلچسپ ہوا جب عمران خان کی بہن عظمیٰ خان جیل سے باہر آ کر میڈیا کے سامنے اعلان کرتی ہیں کہ "عمران خان نے پیغام دیا ہے کہ تحریک کے قائد محمود خان اچکزئی ہوں گے اور پارٹی ان کی ہدایات پر عمل کرے گی"۔ یعنی پی ٹی آئی اب عملی طور پر اچکزئی کی رہنمائی میں چلنے والی ہے۔
یہ وہی اچکزئی ہیں جو کل تک "قوم دشمن" کہلائے جاتے تھے، جن پر طنز کے تیر برسائے جاتے تھے، جنہیں ہزیمت کا استعارہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ آج وہی اچکزئی پی ٹی آئی کے لیے امیدِ وفا، دیانت داری کی مثال اور جمہوریت کے علمبردار بن چکے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ محمود خان اچکزئی کون ہیں۔ وہ کل بھی یہی تھے، آج بھی یہی ہیں، اپنے مؤقف، اپنے نظریے اور اپنے اصولوں پر قائم۔ اصل سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کون ہے؟ وہ کس بات پر کھڑی ہے؟ کیا وہ اپنے کل پر شرمندہ ہے یا آج کے فائدوں کی قیدی؟
اگر اچکزئی صاحب کل غدار تھے تو آج قائد کیسے بن گئے؟ اور اگر آج قائد ہیں تو کل انہیں غدار کیوں کہا گیا؟
یہی وہ سوال ہے جو پاکستان کی سیاست کا اصل آئینہ ہے۔ بدلتے اصول نہیں، بدلتے کردار اور جہاں کردار بدل جائیں، وہاں سیاست نہیں، صرف سیاستدان رہ جاتے ہیں اور یہی وہ لمحہ ہے جب قوم کو سوچنا ہوگا کہ کل کی سیاست کی بنیاد آج کے مفاد پر ہے یا اصول پر۔ کیونکہ جب مفاد زیادہ اہمیت پائے تو قیادت کا معیار خود بخود کمزور ہو جاتا ہے۔

