Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Jab Ikhtilaf e Raye Jurm Ban Jaye

Jab Ikhtilaf e Raye Jurm Ban Jaye

جب اختلافِ رائے جرم بن جائے

کہتے ہیں، جب ایک شخص کی عزت پر حملہ ہوتا ہے تو صرف وہ فرد ہی زخمی نہیں ہوتا بلکہ پورا سماج زخمی ہوتا ہے۔ یہ بات گزشتہ دنوں شاہزیب خانزادہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے ایک مرتبہ پھر یاد دلائی ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک شاپنگ مال میں چل رہے تھے، کہ اچانک ایک شخص ان کے پیچھے آیا اور انتہائی ذاتی گالی گلوچ شروع کر دی۔ اس نے ان پر عمران خان کے خلاف ان کی رپورٹنگ پر تنقید کی اور ان کی بیوی کو بھی شامل کیا۔ ویڈیو میں ان کی اہلیہ بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں اور یہ کوئی اتفاقی روڈ رنڈم بات نہیں تھی، بلکہ ایک منظم روّیہ ہے۔

یہ رویہ اب اجنبی بات نہیں رہا۔ پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے والے اینکرز، صحافی، سیاستدان، ججز، ان پر ایسے حملے اب حادثہ نہ رہے بلکہ ایک تسلسل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ غنڈہ گردی صرف تنقید نہیں، بلکہ ایک ذہن سازی کی مہم ہے جس میں کچھ طاقتور حلقے اپنے مخالفین کو صرف بیانیے کی بنیاد پر "دشمن" بنا رہے ہیں۔ یہ الزامات صرف میڈیا پر محدود نہیں ہیں، یہ ایک نظامی رجحان ہے۔

اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ ماضی میں بعض سیاستدانوں نے عوامی جلسوں یا سوشل میڈیا کے ذریعے صحافیوں، تجزیہ کاروں کو ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی تسلسل کا حصہ ہے وہ منظم نفرت جو بعض لوگوں کی بیانیہ سازی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جس میں مخالف رائے کو غداری اور تنقید کو سازش سمجھا جاتا ہے۔

اور فقط یہ کافی نہیں، اس زہریلے رویے کی چپ سی منظوری بعض حلقوں کی جانب سے ملتی ہے جو اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے کی سوچ کو ترویج دے رہے ہیں۔ یہ جماعتی رویہ اصل میں ایک ایسی ذہن سازی ہے جس نے لوگوں کو یہ باور کروایا ہے کہ اختلاف کرنا جرم ہے اور اظہارِ رائے ایک خطرناک فعل ہے۔

یہ ذہن سازی کہاں لے جا رہی ہے؟ ایک ایسے معاشرے کی طرف جس میں تحمل، احترامِ رائے اور تنقیدی سوچ زمین بوس ہو جائیں۔ جہاں لوگ بحث کی بجائے حملے کو معمول سمجھیں اور اختلافِ رائے ایک قابلِ سماعت بحث کی بجائے ذاتی حملے کی راہ اختیار کرے۔

یہی وہ ماحول ہے جس نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بیرون ملک پیش آنے والے واقعے کو جنم دیا، جب ایک نوجوان نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں ہراساں کیا۔ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک بیکری میں گالیاں دی گئیں، "لانَت ہو آپ پر" کہہ کر ان کی تضحیک کی گئی۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جو بتا رہی ہیں کہ ججز، صحافی، سیاستدان، سب اس نفرت کی زد میں آ رہے ہیں۔

ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کے پاس: دلیل کم ہے، برداشت کم ہے اور غصہ بہت زیادہ ہے۔

یہ نوجوان کسی لیڈر سے نظریہ نہیں لیتے، وہ صرف "دشمن" کا تعین لیتے ہیں اور جب قوم کا بیانیہ دشمن کی شناخت بن جائے، تو پھر سماج میں اختلافِ رائے زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرتا، صرف تقسیم ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ایسے واقعات کو جرم سمجھا جاتا ہے، جذبات نہیں۔ فرانس میں ہراسانی پر جرمانے اور جیل کی سزا ہے۔ جرمنی میں اخلاقی ہراسانی کو "وقار پر حملہ" تصور کیا جاتا ہے۔

اسپین، اٹلی، یوکے اور اسکینڈے نیوین ممالک میں عوامی مقامات پر کسی کو aggressively follow کرنا یا verbal harassment کرنا باقاعدہ پولیس کیس بنتا ہے۔

اور ہمارے ہاں؟

ہم پہلے وڈیو دیکھتے ہیں، پھر طنز کرتے ہیں، پھر میمز بناتے ہیں اور پھر اگلے واقعے کا انتظار کرتے ہیں۔

مجلسِ سیاستدان اور ریاست دونوں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ ایسے حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ قانونی نظام کو ان افراد کے خلاف سخت اور فوری کارروائی کرنی چاہیے جو اختلافِ رائے رکھنے والوں پر حملہ کرتے ہیں، بے لحاظِ ان کا عہدہ، مقام یا حیثیت۔ صرف مثال قائم کرنے سے ہی یہ پیغام جائے گا کہ عزتِ رائے، عزتِ انسانیت اور معاشرتی تہذیب ہماری اولین ترجیح ہے۔

کیونکہ اگر آج ہم نے خاموشی کا انتخاب کیا، تو کل کوئی اور، کوئی اور اینکر، کوئی اور جج، کوئی اور سیاستدان، اسی گلی کی زد میں ہو سکتا ہے اور اگر ہم نے آج انصاف نہ مانگا، تو کل ہمارے لیے انصاف کا تصور ہی مضمحل ہو جائے گا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari