Imran Khan Siyasat Ki Pitch Par (4)
عمران خان سیاست کی پچ پر (4)

سیاست میں بعض فیصلے بظاہر عدالتوں کے کمروں میں ہوتے ہیں، مگر ان کی بازگشت گلیوں، جلسوں، اسکرینوں اور ذہنوں تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ 2017ء بھی پاکستان کی سیاست کا ایسا ہی سال تھا۔ بظاہر یہ احتساب کا سال تھا، حقیقت میں یہ طاقت کے توازن کو ازسرِنو ترتیب دینے کا سال تھا۔ اسی سال ایک منتخب وزیر اعظم، نواز شریف، کو پانامہ پیپرز کے مقدمے میں عدالت کے ذریعے نااہل کر دیا گیا۔ فیصلہ عدالتی تھا، مگر اس کے سیاسی اثرات پہلے سے لکھے جا چکے تھے۔
نواز شریف کی نااہلی کے ساتھ ہی سیاست کی پچ پر ایک نئی اننگ کی تیاری شروع ہوگئی۔ میدان صاف کیا جا رہا تھا، بیانیہ تراشا جا رہا تھا اور ایک کردار کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنے کی مہم پورے زور و شور سے جاری تھی۔ یہ کردار عمران خان کا تھا۔
2017ء کے بعد اگر کوئی شخص دن رات اسکرین پر نظر آتا تھا تو وہ عمران خان تھے۔ نیوز بلیٹن ہوں، ٹاک شوز ہوں، بریکنگ نیوز ہو یا تجزیے، ہر جگہ ایک ہی تاثر دیا جا رہا تھا کہ ملک کی تمام برائیاں چند مخصوص خاندانوں کی وجہ سے ہیں اور تمام اچھائیاں ایک شخص کی آمد کی منتظر ہیں۔ میڈیا چینلز کو دباؤ میں لا کر ایک منظم کمپین چلائی گئی۔ کچھ آوازیں خاموش ہوئیں، کچھ اینکرز بدلے گئے اور کچھ موضوعات ناقابلِ گفتگو قرار پائے۔
ادھر سوشل میڈیا پر ایک اور محاذ کھولا گیا۔ نوجوانوں کی ذہن سازی کی گئی، ٹرینڈز بنائے گئے، مخالفین کو غدار، چور اور ڈاکو ثابت کیا گیا۔ عمران خان کو ایمانداری کا استعارہ، خودداری کی علامت اور قوم کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ جو سوال کرتا، وہ بکاؤ تھا، جو اختلاف کرتا، وہ مافیا کا حصہ تھا۔
اسی دوران عمران خان اور ان کی جماعت دن رات دیگر سیاسی قیادت کو چور ڈاکو کہتی رہی۔ جلسوں، ریلیوں اور انٹرویوز میں عمران خان ایک ہی اسکرپٹ دہراتے تھے: "میرے پاکستانیوں! آپ پر اتنا قرض ہے کہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ پیدا ہوتے ہی مقروض ہوتا ہے"۔ وہ کہتے تھے: "میں وزیراعظم بنا تو آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا"۔ وہ اعلان کرتے تھے: "نوے دن میں کرپشن ختم کر دوں گا"۔ وہ دعویٰ کرتے تھے: "ملک کے حکمران روزانہ اربوں کی کرپشن کرتے ہیں"۔
یہ جملے صرف نعرے نہیں تھے، یہ امیدیں تھیں، یہ وعدے تھے، یہ وہ خواب تھے جو ایک تھکی ہوئی قوم کو دکھائے جا رہے تھے۔
عمران خان کے ساتھی مراد سعید تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے گا تو اگلے ہی دن دفتر جا کر فلاں ملک کے منہ پر اتنے ارب مارے گا اور فلاں ملک کے منہ پر اتنے ارب۔ مطلب یہ کہ پاکستان اب کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گا، دنیا خود ہمارے دروازے پر آئے گی۔
2018ء کے انتخابات ہوئے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھر سیاست کی پچ پر وہ لمحہ آیا جسے اصل امتحان کہا جاتا ہے۔ نعرے ختم ہوئے، کیمرے بند ہوئے اور فائلیں کھل گئیں۔
خودکشی کی باتیں فائلوں میں دفن ہوگئیں اور آئی ایم ایف کے دروازے کھل گئے۔ عمران خان کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے ریکارڈ قرضے لیے۔ جن قرضوں کو وہ کل تک "بھیک" کہا کرتے تھے، اقتدار میں آ کر انہی قرضوں کا نام "پیکج" رکھ دیا گیا۔ اب سینہ تان کر قوم کو بتایا جاتا: "مبارک ہو! ہمیں فلاں ملک سے بہترین پیکج مل گیا ہے"۔
کل جو بھیک تھی، آج وہ سفارتکاری بن گئی۔ کل جو ذلت تھی، آج وہ کامیابی کہلائی۔ کل جو دوسروں کی مجبوری تھی، آج وہ قومی ضرورت قرار پائی۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ ملک کے حکمران جب باہر جاتے ہیں تو بھیک مانگتے ہیں۔ اقتدار میں آ کر وہ خود انہی ملکوں سے قرض، امداد اور پیکجز لینے لگے، فرق صرف لفظوں کا تھا، حقیقت وہی رہی۔
اقتدار میں آنے کے بعد حکمرانی کے فیصلوں نے بھی کئی سوالات کھڑے کیے۔ خیبر پختونخوا میں محمود خان اور پنجاب جیسے بڑے صوبے میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ عثمان بزدار نے تو اپنی وزارتِ اعلیٰ کا بڑا حصہ یہ کہہ کر گزار دیا کہ "میں ابھی سیکھ رہا ہوں"۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیکھنے کا عمل جاری تھا اور وزیراعظم صاحب انہیں "وسیم اکرم پلس" کہا کرتے تھے۔ یہ جملہ شاید مزاح کے لیے تھا، مگر حقیقت میں یہ حکمرانی کی سنجیدگی پر ایک سوالیہ نشان بن گیا۔
وفاق، پنجاب اور کے پی کے، کہیں بھی کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ کوئی میگا پراجیکٹ، کوئی انقلابی اصلاحات، کوئی معاشی بریک تھرو سامنے نہ آ سکا۔ اگر بقول عمران خان کے پچھلے حکمران روزانہ اربوں کی کرپشن کرتے تھے اور تحریک انصاف نے کرپشن نہیں کی، تو پھر وہ اربوں کہاں گئے؟ وہ بچت کہاں گئی؟ وہ پیسہ کس کھاتے میں چلا گیا؟
اس کے باوجود دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے ریکارڈ قرضے لیے گئے۔ اگر کرپشن ختم ہوگئی تھی، اگر بچت ہو رہی تھی، اگر ملک دیانت داری سے چل رہا تھا، تو پھر قرضوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔
سیاست کی پچ پر عمران خان کی یہ اننگ وعدوں، دعوؤں اور حقیقتوں کے درمیان ایک طویل فاصلہ ثابت ہوئی۔ جو خواب دکھائے گئے تھے، وہ تعبیر نہ پا سکے۔ جو نعرے لگائے گئے تھے، وہ فائلوں میں دب گئے اور جو دوسروں کو چور ڈاکو کہا گیا تھا، انہی کے بنائے ہوئے نظام کے سہارے حکومت چلائی جاتی رہی۔
یہ اننگ صرف عمران خان کی نہیں تھی، یہ ہماری اجتماعی سیاسی سوچ کی بھی تھی، جہاں ہم نعرے پر یقین کرتے ہیں، سوال پر نہیں اور شاید اسی لیے سیاست کی پچ پر یہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا۔
جاری ہے۔۔

