Monday, 29 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Imran Khan Siyasat Ki Pitch Par (3)

Imran Khan Siyasat Ki Pitch Par (3)

عمران خان سیاست کی پچ پر (3)

سیاست بعض اوقات ایسا دریچہ ثابت ہوتی ہے جس سے قیادت کی اصل نیت اور اصل مزاج جھانک کر سامنے آ جاتا ہے۔ کچھ رہنما اس دریچے سے روشنی اندر آنے دیتے ہیں، جبکہ کچھ اسے بند کرکے اندھیرے میں اپنا راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد عمران خان کی پارٹی پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچی تو ان کے سامنے بھی یہی دریچہ کھلا کھڑا تھا۔ پہلی بار انہیں ایک صوبے، خیبر پختونخواہ، کی باگ ڈور ملی تھی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں وہ ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کر سکتے تھے۔

قومی اسمبلی میں ان کے پاس واضح شناخت تھی، نئی پارٹی، تیز لہجہ، بلند دعوے اور نوجوان نسل کا غیر معمولی اعتماد۔ وہ چاہتے تو ایک مضبوط، مدلل اور مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے تھے، ملکی پالیسیوں کو نیا زاویہ دے سکتے تھے اور خیبر پختونخواہ کو ایک ماڈل صوبہ بنا سکتے تھے۔ لیکن اس موقع پر انہوں نے جو راستہ چنا، اسی نے آنے والی پوری سیاسی بساط کی سمت طے کر دی۔

عمران خان نے اسمبلی کی سیاست یا صوبے کی گورننس کے بجائے سارا وزن اس بیانیے میں ڈال دیا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی، "35 پنکچر" لگائے گئے اور یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہوگا۔ جلسوں، پریس کانفرنسوں، ٹی وی مباحثوں اور ہر دوسرے خطاب میں یہی فقرہ گونجتا: "انتخابات چوری ہو گئے"۔

یہ بیانیہ رفتہ رفتہ ایک بڑے سیاسی طوفان میں تبدیل ہونے لگا۔

دلچسپ اور تضاد سے بھرپور حقیقت یہ ہے کہ یہی عمران خان اپنی پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی خبر سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد، جو تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے چیف الیکشن کمشنر تھے، نے شکایات پر تحقیقات شروع کیں۔ ایک الیکشن ٹریبونل بنا جس نے پنجاب اور مرکزی تنظیم میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ متعدد رہنماؤں کو ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔ لیکن دوبارہ منصفانہ پارٹی انتخابات کرانے کے بجائے عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین ہی کو پارٹی سے نکال دیا۔

یہ فیصلہ اس بات کا پہلا اشارہ تھا کہ وہ اپنی جماعت کے اندر شفافیت سے زیادہ بیرونی بیانیے کی آگ کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ پارٹی ممبر شپ مہم کا بھی یہی حال تھا۔ پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کے کارندے یونین کونسلوں کی ووٹر لسٹیں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرستیں اٹھا کر بیٹھ گئے اور ہزاروں جعلی ممبر بنا ڈالے۔ میرے اپنے حلقے میں لاتعداد لوگوں کو یہ علم ہی نہ تھا کہ وہ تحریک انصاف کے رکن "بنا دیے گئے" ہیں۔ انہی جعلی ممبر لسٹوں پر انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے اور یہ وہ حقیقت تھی جسے جسٹس وجیہہ منظرعام پر لانا چاہتے تھے۔ لیکن ملک گیر دھاندلی کا شور ان اندرونی بے ضابطگیوں کو پس منظر میں دھکیل چکا تھا۔

2014ء میں عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے کے ساتھ لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اگست میں قافلے لاہور سے نکلے اور اسلام آباد کے ڈی چوک نے وہ سیاسی منظر دیکھا جو آج بھی ہماری قومی تاریخ کے انتہائی اہم ابواب میں درج ہے۔

اسلام آباد پہنچتے ہی ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ دونوں جماعتوں کے کارکنان نے وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کیا، گیٹ پھلانگنے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی اداروں نے اسے روک دیا۔ اگلے دن پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ ہوا، عمارت میں گھس کر ٹرانسمیشن بند کرائی گئی اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ فوج نے اگلے چند گھنٹوں میں عمارت خالی کروا لی۔

دھرنے کے دنوں میں مجھے میرے والد کے قریبی دوست سینئر سیاستدان سابق رکن قومی اسمبلی ارشد جاوید گُھرکی مرحوم نے اپنے گھر ہونے والی ملاقات میں بتایا کہ یہ دھرنا لندن میں پلان ہوا ہے۔ بعد میں کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اسی نوعیت کے دعوے کیے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقاتیں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے لندن میں ہوئی تھیں۔

روزانہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان ایک جملہ دہراتے: "ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے!"

یہ اشارہ سب سمجھتے تھے، ایمپائر سے مراد اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ تھی۔

جو بات وہ برسوں نواز شریف کے بارے میں کہتے رہے کہ نواز شریف ہمیشہ ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتا ہے، وہی عمران خان آج خود اسی امید کے سہارے کھڑے تھے۔ لیکن 126 دن گزر گئے اور ایمپائر کی انگلی نا اُٹھی۔

اسی دھرنے کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی نے عمران خان سے اختلافات کے باعث تحریک انصاف چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس پر چڑھائی چاہتے تھے جبکہ وہ آئینی راستے کی بات کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ عمران خان نے انہیں بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت گر جائے گی۔ جاوید ہاشمی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے شدید مخالف تھے اور اسے جمہوریت کے لیے زہر سمجھتے تھے۔

پارٹی چھوڑتے ہی تحریک انصاف نے انہیں "غدار" کہہ ڈالا۔ حالانکہ یہی جاوید ہاشمی جب مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے تھے تو اسی جماعت کے نوجوان نعرے لگاتے تھے:

"ایک بہادر آدمی، ہاشمی، ہاشمی!"

وقت بدلا تو بہادر غدار ہوگیا۔

دھرنے کے آخری دنوں میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ 132 معصوم بچوں سمیت 149 لوگ شہید ہوئے۔ یہ وہ دن تھا جس نے پورے ملک کی سانس روک دی۔ اگلے ہی روز عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم کچھ حلقوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ ہی نے دھرنا ختم کرنے کا کہا تھا۔

انتخابات میں دھاندلی اور 35 پنکچر کا جو دعویٰ کرکے عمران خان نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تھی، 2015ء میں اپنے اس دعوے سے پیچھے ہٹ گئے اور ایک انٹرویو میں فرمایا کہ "یہ ایک سیاسی بیان تھا"۔

سیاست کی پچ پر یہ عمران خان کی تیسری بڑی اننگ تھی اور اس اننگ نے پاکستان کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Saqoot e Dhaka Aur Udhar Tum, Idhar Hum Ki Haqiqat

By Aslam Nadaar Sulehri