Sunday, 07 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Imran Khan Siyasat Ki Pitch Par (1)

Imran Khan Siyasat Ki Pitch Par (1)

عمران خان سیاست کی پچ پر (1)

سیاست کی دنیا بھی کرکٹ گراؤنڈ کی طرح ہے، چالاک باؤلرز، مشکل پچ، تیز رفتار باؤنسرز اور تماشائیوں کی بلند ہوتی آوازیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاست میں امپائر نیوٹرل نہیں ہوتے اور کھیل ختم ہونے کا اعلان کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ اسی پیچیدہ میدان میں عمران خان ایک ایسے کھلاڑی کے طور پر داخل ہوئے جن کی سیاست کی "پچ" دوسروں سے بہت مختلف تھی۔ ان کے حامی انہیں امید کا استعارہ بناتے رہے، جبکہ مخالف انہیں جذباتی، ناتجربہ کار اور غیر حقیقت پسند سمجھتے تھے۔ لیکن ایک بات طے ہے: عمران خان نے پاکستانی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔

عمران خان کا سیاست میں آنا بہتوں کو ایک شوقیہ کوشش لگا۔ مگر اصل حیرت اس وقت ہوئی جب اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور ملک میں مارشل لا نافذ کیا۔ عمران خان، جو چند سال پہلے تک جمہوریت اور آئین کی بات کرتے تھے، اس اقدام کے واضح حامی بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے مشرف کے فوجی قبضے کو پاکستان کے لیے "خوش قسمتی" قرار دیا اور اسے "ضروری اصلاح" کا موقع بتایا۔ اس وقت کے ان کے بیانات آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور ان کے ناقدین آج تک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک شخص جو جمہوری سیاست بدلنے آیا تھا، وہ پہلے ہی موڑ پر آمریت کے ساتھ کیوں کھڑا ہوگیا؟

مشرف کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں عمران خان کا جھکاؤ کھل کر اس نئی فوجی حکومت کی طرف تھا۔ وہ صرف حمایت ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ 2002ء کے صدارتی ریفرنڈم میں جنرل مشرف کو "یونیفارم میں صدر" منتخب کروانے کی مہم کا حصہ بھی بنے۔ ان کے ناقدین کا مؤقف ہے کہ عمران خان یہ سب اس امید یا توقع میں کر رہے تھے کہ شاید جنرل مشرف انہیں قومی اسمبلی میں ایک سیٹ دلوا کر وزیر اعظم بنانے پر تیار ہو جائے، ایک ایسی خواہش جس کا کبھی باقاعدہ اعتراف تو نہیں ملا، لیکن سیاسی حلقوں میں اسے ایک کھلا راز سمجھا گیا۔

2002ء کے انتخابات میں عمران خان روایتی سیاست دانوں کے مقابلے میں کمزور امیدوار تھے، مگر وہ جو واحد نشست جیت کر قومی اسمبلی پہنچے، وہ بھی اس ماحول کا نتیجہ تھی جو مشرف حکومت نے بعض مخصوص سیاست دانوں کے لیے سازگار بنایا ہوا تھا۔ ان کے مخالفین آج بھی کہتے ہیں کہ اگر اُس وقت جنرل مشرف کی چھتری نہ ہوتی تو عمران خان کے لیے قومی اسمبلی تک پہنچنا بھی مشکل تھا۔

لیکن جیسے ہی جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا، وہی شوکت عزیز جو مشرف کے قریبی حلقوں کا انتخاب تھے، تو سیاسی منظرنامہ اچانک پلٹ گیا۔ عمران خان جنہوں نے فوجی حکومت کی حمایت سے سیاسی فائدے کی امید لگائی ہوئی تھی، یکایک ناراضی پر اتر آئے۔ انہوں نے جنرل مشرف میں خامیاں تلاش کرنا شروع کر دیں، ان کی پالیسیاں غلط قرار دی جانے لگیں اور وہی فوجی قیادت، جس کے ساتھ وہ کھڑے تھے، اچانک تنقید کا نشانہ بن گئی۔

آہستہ آہستہ عمران خان کا لہجہ اور بیانیہ بدلنے لگا۔ وہ پاکستانی میڈیا میں مشرف پر کھل کر تنقید کرنے لگے اور صرف یہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا، حتیٰ کہ بھارتی چینلز پر بھی، وہ سابق مارشل لا حکمران کے فیصلوں اور فوجی قیادت کے کردار پر اعتراضات اٹھاتے نظر آئے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ وہی عمران خان تھے جو چند سال پہلے اسی فوجی قیادت کے سب سے بڑے مداح تھے، لیکن جب اقتدار کا دروازہ کھل نہ سکا تو بیانیہ بھی بدل گیا۔

یہ تضاد عمران خان کی سیاست کی پہلی واضح جھلک تھی، جہاں اصول اور موقف سے زیادہ صورتِ حال اور مفاد غالب دکھائی دینے لگا۔ ان کی سیاست کی پچ پر یہ پہلا بڑا یوٹرن تھا، جس نے آنے والے برسوں میں اور بھی ڈرامائی موڑ پیدا کرنے تھے۔

2010ء سے 2011ء میں عمران خان کی قربتیں ایک بار پھر اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑھنے لگیں اور انہوں نے اپنی توپوں کا رخ سیاسی قیادت کی طرف موڑ لیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو وہ کھل کر کرپٹ، چور، ڈاکو اور ملکی وسائل لوٹنے والے قرار دینے لگے۔ اس دوران عمران خان کی پارٹی، تحریک انصاف، کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نئی جان دی گئی۔ سیاستدانوں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت پر مجبور کیا گیا، کبھی سمجھا کر، کبھی دباو ڈال کر۔

روزانہ کی خبروں میں دکھایا جانے لگا کہ پیپلز پارٹی کی آج کتنی وکٹیں گر گئی ہیں اور مسلم لیگ ن کی کتنی۔ پارٹی میں شامل ہونے والوں کے گلے میں عمران خان بڑے فخر کے ساتھ پارٹی کا پرچم ڈال دیتے اور پارٹی کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس مرحلے پر تحریک انصاف ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی جو نہ صرف مخالفین پر تنقید کرتا بلکہ عوامی سطح پر خود کو ایک مضبوط متبادل کے طور پر پیش کرتا۔

یہ سیاستی موڑ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کی ایک نئی جھلک تھی، جہاں میڈیا، عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھائی گئی۔ جلسوں اور ریلیوں میں عمران خان نے عوامی جذبات کو اپنی طرف مائل کیا، جبکہ پارٹی میں شامل ہونے والے نئے سیاستدان اکثر ایسے تھے جو سابقہ جماعتوں میں ناکامی یا دباؤ کا شکار تھے۔ اس دوران پارٹی کی تنظیمی طاقت اور عوامی رسائی بڑھانے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا۔

اس مرحلے میں عمران خان نے خود کو ایک مضبوط اور اصولی لیڈر کے طور پر پیش کیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور طاقت کی بنیاد اکثر سیاسی حالات اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون پر تھی۔ اس کے باوجود، عوامی سطح پر ان کی تقاریر اور بیانیہ ایک ایسے امید کی تصویر کشی کرتے رہے جو روایتی سیاست سے مختلف ہو۔

یہ دور عمران خان کی سیاست کے لیے نہایت اہم تھا کیونکہ اس نے انہیں مرکزی سیاسی دھارے میں لا کر مخالفین کے لیے چیلنج بنایا اور تحریک انصاف کو ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جو مستقبل میں ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے قابل تھا۔ عوامی جلسے، میڈیا مہمات اور اسٹیبلشمنٹ کی خاموش حمایت نے عمران خان کو ایک مضبوط سیاسی شخصیت کے طور پر ابھارا، جس نے آنے والے سالوں میں سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کی بنیاد رکھی۔

جاری ہے۔۔

نوٹ: 27 ویں آئینی ترمیم والے کالم میں ٹائپنگ کی غلطی سے پہلے چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا نام جنرل شریف کی جگہ جنرل یوسف لکھا گیا تھا۔

Check Also

Sab Kujh Kadra Danda

By Syed Mehdi Bukhari