Imran Khan Aur Faiz Hameed
عمران خان اور فیض حمید

تاریخ کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتی۔ وہ بے وفا نہیں، مگر انصاف ضرور کرتی ہے اور اکثر بہت تاخیر سے کرتی ہے۔ پچھلی صدی میں چاؤشیسکو نے سوچا تھا کہ وہ رومانیہ کو ہمیشہ کے لیے جیب میں ڈال لے گا اور پنوشے نے سمجھ لیا تھا کہ وہ وقت کے اوپر حکمرانی کرے گا۔ مگر انجام؟ انجام دونوں کے نام پر آج صرف عبرت کی تختیاں بچی ہیں۔
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ بھی اسی عبرت کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ ایک ایسا باب جس میں کردار طاقت کے گھوڑوں پر سوار تھے، مگر راستہ کھائی کی طرف جاتا تھا اور کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔
کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں طاقت کے دو محور اکٹھے ہوتے ہیں، ایک سیاست کی چمکتی سطح پر، دوسرا ریاست کے گہرے کمروں میں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ عمران خان اپنے اقتدار کے عروج پر تھے اور جنرل فیض حمید اپنی بلند ترین خواہش کے نزدیک۔ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ ایک یہ سمجھتا تھا کہ فیض اس کی حکومت کا محافظ ہے، دوسرا یہ خیال کرتا تھا کہ خان اسے آرمی چیف بننے کی شاہراہ پر ڈال سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب 2018ء کا سیاسی ماحول تبدیل ہوا، جب دروازے کھلے، جب راستے صاف ہوئے اور جب مخالفین کے قدم اکڑنے لگے، اس سارے منظرنامے میں کچھ سایے تھے جو نظر نہیں آتے تھے مگر ہر چیز کو چھو رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے پرانے کارکن اکثر شکایتی لہجے میں کہتے تھے کہ "فیصلے بنی گالا میں نہیں ہوتے تھے، کہیں اور ہوتے تھے"۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی مہم تک، بہت سے فیصلوں پر انگلیاں اُٹھتی رہیں۔
اسی دوران عمران خان کے وزیر شہریار آفریدی قومی اسمبلی کے فلور پر سینہ تان کر کھڑے ہوتے اور ایک ہی فقرہ دہراتے رہتے: "میں نے جان اللہ کو دینی ہے، رانا ثناء اللہ کے خلاف ویڈیو ثبوت موجود ہیں"۔
یہ فقرہ اتنی بار دہرایا گیا کہ لوگ سمجھنے لگے کہ شاید کل صبح وہ ویڈیو آجائے گی۔ مگر وہ ویڈیو نہ کل آئی، نہ پرسوں، نہ کبھی آئی۔ الزام کا شور تھا، مگر ثبوت ایک ایسا وعدہ تھا جو کبھی پورا نہیں ہوا۔
اسی دور میں رانا ثناء اللہ پر سنگین نوعیت کا مقدمہ بنایا گیا۔ ان کی اہلیہ ٹی وی پر آ کر روتی رہتیں کہ "دوائی نہیں دی جا رہی، علاج نہیں ہو رہا" اور حکومت الزامات کو انصاف کا نام دیتی رہی۔ مگر عدالتوں نے بعد میں سوالات بھی اٹھائے، مقدمہ بھی کمزور نکلا اور سارا ڈھانچہ ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا۔
پھر مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، وہ لمحہ جب گرفتار کرنے والے یہ بھول گئے کہ سیاستدانوں کے گھروں میں دروازے صرف لکڑی کے نہیں ہوتے، عزت کے بھی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کیمرے چل رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے طاقت گرفتاری نہیں کر رہی، بلکہ "ایک منظر" بنا رہی ہے۔ کون کون اس لمحے کو اسکرینوں پر بیٹھ کر دیکھ رہا تھا، یہ راز ابھی تک طاقت کے کمروں میں محفوظ ہے۔
عمران خان کی بہن علیمہ کو اس وقت گرفتار نہیں کیا گیا جب وہ خود سرکاری عہدوں سے مستفید تھیں، مگر فریال تالپور کو رات کے اندھیرے میں اسپتال سے نکال کر جیل منتقل کیا گیا۔ ایک طرف بہنوں کے لیے نرم گداز راستے تھے، دوسری طرف اسپتال سے ہتھکڑیاں۔
پھر خواجہ آصف کا معاملہ آیا۔ عمران خان اس حد تک گئے کہ بارہا مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی غداری کا مقدمہ بنایا جائے۔ اختلاف رائے کو غداری کا نام دینا ہمیشہ آمریتوں کا خاصہ رہا ہے، مگر جمہوری حکومت کے دور میں یہ مطالبہ حیران کن تھا۔ مگر طاقت کا نشہ ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے، چاہے بوتل نئی ہو یا پرانی۔
اسی دوران ایک اور منصوبے کی سرگوشیاں گونجتی رہیں۔ اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے، جنرل فیض آرمی چیف ہو جاتے تو شاید آئین میں بڑی تبدیلیوں کا راستہ کھل جاتا، صدارتی نظام کا دروازہ دھڑام سے کھلتا اور پھر، شاید وہی ہوتا جو تجزیہ نگار بارہا کہتے رہے: "پہلے عمران کو اقتدار میں واپس لانا ہے، پھر طاقت کو سادہ بنانا ہے، پھر ایک دن پاکستان کے تخت پر بیٹھنے کی باری آئے گی"۔
مگر وقت ایک بڑا منصوبہ ساز ہے، انسان نہیں۔
وہ عمران خان جو جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ "میں فلاں کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل ڈالوں گا، فلاں کا اے سی اتروا دوں گا"، آج خود بار اور جیل کی سلاخوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ جنرل فیض حمید جو سمجھتے تھے کہ آرمی چیف بنتے بنتے رہ گئے، آج قید تنہائی کے مہمان ہیں۔
تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ظلم کے ہتھوڑے بڑے مضبوط ہوتے ہیں، مگر ان کی بنیادیں بہت کمزور ہوتی ہیں اور جب وہ ہتھوڑا واپس پلٹتا ہے، تو سب سے پہلے وہ انہی ہاتھوں کو زخمی کرتا ہے جنہوں نے اسے پکڑا تھا۔
آج یہ وقت ایک پیغام بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے:
طاقت کا موسم ہمیشہ بدلتا ہے۔ جو کل حکمران تھے، آج قیدی ہیں اور جو سمجھتے تھے کہ وہ تاریخ لکھیں گے، تاریخ نے انہیں حاشیے پر دھکیل دیا ہے۔
آخر میں چرچل سے منسوب قول: "ظلم ہمیشہ دوڑتا ہوا آتا ہے اور لنگڑاتا ہوا واپس جاتا ہے، لیکن واپس ضرور جاتا ہے"۔

