Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Gande Kapre Aur Siasi Dhulai

Gande Kapre Aur Siasi Dhulai

گندے کپڑے اور سیاسی دھلائی

کہتے ہیں انسان اپنی غلطیوں سے یا تو سیکھ لیتا ہے، یا پھر وہ غلطیاں اسے سکھا دیتی ہیں۔ سیاست بھی کچھ ایسی ہی کم بخت شے ہے، جو ضد کر لے، اسے زندگی بھر پیچھے گھسیٹتی رہتی ہے اور جو مان لے، اسے آگے بڑھا دیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنی غلطیوں سے انکار کرتے کرتے عمر گزار دیتے ہیں اور پھر حیران رہتے ہیں کہ راستے بند کیوں ہیں؟

گزشتہ چند دنوں میں عمران خان کی بہنوں نورین نیازی اور علیمہ خان نے انڈین چینلز کو انٹرویوز دیے۔ دونوں بہنوں کے جذبات اپنی جگہ بجا، دکھ اور تکلیف بھی قابلِ فہم، مگر فورم غلط، وقت غلط اور پلیٹ فارم بالکل غلط تھا۔ ہندوستانی میڈیا کبھی پاکستانی سیاست کا غیر جانب دار تجزیہ نہیں کرتا، وہ اسے مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے۔ ایسے میں ملک کے حساس ترین معاملات وہاں لے جانا دانائی نہیں، سادگی کہی جائے یا سیاسی نابالغی۔

اور پھر تاریخ کا ایک عجیب سا جملہ یاد آتا ہے، وہ جملہ جو غلام مصطفٰی کھَر نے ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری پر کہا تھا: "میں انڈین ٹینکوں پر بیٹھ کر واپس آؤں گا"۔

وقت گزرتا گیا، سیاست بدلتی رہی، لوگ بدلتے رہے، مگر یہ ایک فقرہ اُن کے گلے میں لٹکا رہا۔ بعض جملے، بعض غلط فیصلے، بعض غلط پلیٹ فارم، سیاستدان عمر بھر اٹھاتے رہتے ہیں۔ یہی وہ آئینہ ہے جو آج عمران خان کی بہنوں کے انٹرویوز کے سامنے کھڑا ہے۔

ادھر صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ حلقے ایسی سوشل میڈیا مہم چلا رہے ہیں جس میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈی جی سی جنرل فیصل نصیر جیسے حساس عہدیداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر سنجیدہ ہے بلکہ نقصان دہ بھی۔ اداروں سے لڑائی کبھی کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں گئی اور اگر کسی کو شک ہے تو پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ کھول کر دیکھ لے۔ جنگ کا راستہ ہمیشہ گہری کھائی کی طرف جاتا ہے اور مکالمہ ہمیشہ راستہ نکالتا ہے۔

اسی دوران خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ دوبارہ اڈیالہ جیل کے سامنے دھرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور لوگ لانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دھرنے اب بھی سیاست کا حل ہیں؟ کیا ٹکراؤ واقعی راستہ کھولتا ہے؟ یا پھر یہ سب معاملات کو مزید الجھاتا ہے؟ دھرنے جذبات بھڑکا تو سکتے ہیں، راستے نہیں کھول سکتے۔

پی ٹی آئی کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ سیاسی مسئلہ سیاسی راستے سے ہی حل ہوتا ہے۔ جب اسمبلی میں کوئی اہم ترمیم ہوتی ہے تو وہ غائب ہو جاتے ہیں اور جب سڑکوں پر نعروں کی باری آتی ہے تو سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست صرف احتجاج نہیں، سیاست وہاں ہوتی ہے جہاں ووٹ گنتے ہیں، جہاں آواز ریکارڈ ہوتی ہے، جہاں قانون بنتا ہے، یعنی اسمبلی میں۔ اگر آپ واقعی سیاسی جماعت ہیں تو آپ کا اصل میدان وہاں ہے۔

عمران خان کی ملاقات ہونی چاہیے، لیکن اگر کسی وجہ سے نہیں ہو رہی تو اسے دھرنوں، تقاریر یا عدمِ برداشت سے نہیں، بلکہ سیاسی مکالمے سے حل کیا جانا چاہیے۔ دروازے لات مارنے سے نہیں کھلتے، دستک دینے سے کھلتے ہیں اور سیاست میں دستک کبھی کمزور نہیں ہوتی، کمزوری صرف وہ ہوتی ہے جو اس دستک سے بھاگتی ہے۔

دنیا کی سیاسی تاریخ چیخ چیخ کر ایک ہی جملہ دہراتی ہے:

جنگ نقصان دیتی ہے، مکالمہ راستے کھولتا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے یہی کیا۔

آصف علی زرداری نے بھی یہی کیا، برداشت، وقت، حکمت اور پھر دوبارہ اقتدار۔

بہت سے سیاستدان ٹکراؤ کے پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھسل کر نیچے آ جاتے ہیں۔ لیکن جو قدم زمین پر رکھتے ہیں، وہ دوبارہ نظام میں جگہ بنا لیتے ہیں۔

پی ٹی آئی بھی اگر واقعی عمران خان کے لیے بہتر راستہ چاہتی ہے تو اسے احتجاج اور اداروں پر چڑھائی سے نکل کر وہی راستہ اختیار کرنا ہوگا جسے سیاست کہتے ہیں، گفتگو، حکمت، لچک اور قانون سازی۔

بحران کبھی سڑکوں سے حل نہیں ہوتے۔ بحران میز پر حل ہوتے ہیں۔ گندے کپڑے کبھی باہر دھونے سے صاف نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ گھر کے اندر دھلتے ہیں اور سیاست بھی۔ گھر کے اندر ہی چلتی ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam