Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Dhaka Ka Faisla, Tareekh Ka Inteqam

Dhaka Ka Faisla, Tareekh Ka Inteqam

ڈھاکہ کا فیصلہ، تاریخ کا انتقام

کبھی کبھی ملک ایسے موڑ پر آ کھڑے ہوتے ہیں جہاں تاریخ اور انصاف ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش آج ایسے ہی موڑ پر کھڑا ہے۔ صبح کی ہوا ابھی تازہ ہی تھی جب ڈھاکہ کی عدالت سے خبر نکلی کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، وہی حسینہ جو خود کو قوم کی ماں کہتی تھیں، کو انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

کہا جاتا ہے، اقتدار اگر ہاتھ میں دیر تک رہے تو انسان کو خدا ہونے کا وہم ہونے لگتا ہے۔ حسینہ کے ساتھ بھی شاید یہی ہوا۔ جولائی اور اگست 2024ء میں جب ملک کے ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکلے، ان کے ہاتھوں میں کتابیں تھیں، نعرے تھے، امید تھی اور مقابلے میں ریاست کے پاس بندوقیں اور حکّام کا غرور۔ اس احتجاج میں سرکاری اعداد کے مطابق تقریباً چودہ سو افراد مارے گئے۔ ٹریبونل نے آج اعلان کیا کہ اس خونی آپریشن کی "ماسٹر مائنڈ" خود شیخ حسینہ تھیں۔

عدالت میں چلنے والی ریکارڈنگز میں ان کی آواز محفوظ ہے: "جہاں ملیں، دیکھتے ہی گولی مار دو" اور جب ایک لیڈر اپنی ہی قوم کو دشمن سمجھنے لگے تو پھر فیصلے کبھی نرم نہیں رہتے۔

شیخ حسینہ نے تقریباً 20 سال ملک پر حکومت کی۔ ایک مرتبہ 1996ء سے 2001ء تک اور دوسری بار مسلسل پندرہ سال 2009ء سے 2024ء تک۔ لمبی حکومتیں اکثر آمریت کی طرف پھسل جاتی ہیں اور حسینہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ آخری برسوں میں وزیر اعظم کم اور ایک حاکمِ مطلق زیادہ بن گئی تھیں۔ عدالتوں سے لے کر میڈیا تک اور اپوزیشن سے لے کر سڑکوں تک، ہر جگہ ریاست کے وزن نے عوامی آواز کو دبائے رکھا۔

اور پھر وہ دن آیا جب بنگلہ دیش کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی غصہ سڑکوں پر بہہ نکلا۔ طلبہ کی تحریک نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ وزارتیں لڑکھڑا گئیں، ادارے کمزور پڑ گئے اور وہ حسینہ واجد، جو کبھی کہتی تھیں کہ "میرے بغیر ملک ٹوٹ جائے گا"، اپنا اقتدار چھوڑ کر بھارت منتقل ہوگئیں۔ آج کا عدالتی فیصلہ انہی کی غیر موجودگی میں سنایا گیا۔

حسینہ کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، یہ تو ایک سیاسی وراثت کی کہانی بھی ہے۔ ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن تھے، جنہیں بنگلہ دیش میں "بانگابندھو" کہتے ہیں۔ وہی مجیب جنہوں نے مکتی باہنی کی پشت پر کھڑے ہو کر 1971ء کی جنگِ آزادی میں اپنی قوم کو منزل دکھائی۔ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جو ملک وجود میں آیا، اس کا باپ شیخ مجیب کہلایا۔ مگر تاریخ ہمیشہ فاتح کو بھی نہیں بخشتی۔ 1975ء کی رات فوجی بغاوت ہوئی اور مجیب الرحمٰن اپنے پورے خاندان سمیت قتل کر دیے گئے۔ صرف دو لوگ بچیں، ان کی بیٹی حسینہ اور دوسری بیٹی ریحانہ، کیونکہ دونوں اس وقت ملک سے باہر تھیں۔

بنگلہ دیش کی سیاست کا دوسرا رخ خالدہ ضیاء ہیں۔ سابق صدر ضیاعُررحمان کی بیوہ، وہی صدر جسے 1981ء میں ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا۔ خالدہ اور حسینہ، دو عورتیں، دو داستانیں، دو نفرتیں، جنہوں نے تین دہائیوں تک بنگلہ دیش کی سیاست کو دو دھاری تلوار میں تقسیم کیے رکھا۔

حسینہ کے دور میں خالدہ جیل بھی گئیں، بیمار بھی ہوئیں اور سیاست سے تقریباً ختم بھی کر دی گئیں۔ مگر یہ کہنا کہ حسینہ نے انہیں "اتنے سال قید رکھا" سیاسی بیانیہ تو ہو سکتا ہے، تاریخی حقیقت نہیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ دونوں ایک دوسری کی سیاست کے گلے میں کانٹا بنی رہیں۔

آج بنگلہ دیش کی عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے، وہ صرف حسینہ واجد کی سزا نہیں، یہ دراصل ایک قوم کی وہ کہانی ہے جو نصف صدی سے اقتدار، انتقام اور خون کے بیچ پھنس کر رہ گئی ہے۔ مکتی باہنی سے شروع ہونے والی سیاست آج طلبہ کی لاشوں تک آ پہنچی ہے۔

کالم ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات، حسینہ کے خلاف فیصلہ قائم رہتا ہے یا نہیں، یہ اگلے چند ہفتے طے کریں گے۔ مگر اتنا طے ہے کہ اب بنگلہ دیش ایک نئے دور کے دہانے پر کھڑا ہے۔ شاید یہ وہ لمحہ ہے جب تاریخ پہلی بار دونوں ہاتھوں سے دروازہ کھول کر پوچھ رہی ہے: کیا اس ملک کو آخرکار انصاف ملے گا، یا ایک اور انتقام جنم لے گا؟

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz