Deal Master, Donald Trump
ڈیل ماسٹر، ڈونلڈ ٹرمپ

آپ نے کبھی کسی ایسے سیلزمین کو دیکھا ہے جو آپ کو وہ چیز بھی بیچ دے جو آپ کو دراصل چاہیے ہی نہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کا وہ سیلزمین ہے۔ وہ سیاستدان کم، تاجر زیادہ ہے اور تاجر کبھی جذبات میں فیصلہ نہیں کرتا، وہ صرف "نفع" دیکھتا ہے، چاہے وہ نفع تیل سے آئے، ہتھیار سے یا امن کے وعدے سے۔
2020 میں جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ابراہیم اکارڈ پر دستخط کروا رہا تھا تو اس کے چہرے پر وہی اطمینان تھا جو کسی کامیاب سودے کے بعد ایک بزنس مین کے چہرے پر ہوتا ہے۔ اس کے الفاظ تھے:
"Peace is the best deal, and Im the best dealer. "
(امن سب سے بہترین سودا ہے اور میں سب سے بہترین سوداگر ہوں۔)
آج جب غزہ کی زمین ایک بار پھر خون سے رنگی ہوئی ہے، اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی پر بات ہو رہی ہے اور عرب دنیا ایک بار پھر "دو قدم آگے، ایک قدم پیچھے" کے اصول پر چل رہی ہے، تو پردے کے پیچھے ایک بار پھر وہی سوداگر متحرک ہے، ڈونلڈ جے ٹرمپ۔
ٹرمپ کا فلسفہ سیدھا ہے: "امن بھی ایک پراڈکٹ ہے"۔
وہ اسے اسی طرح بیچتا ہے جیسے وہ ٹرمپ ٹاور یا گالف کلب کی ڈیل بیچتا ہے۔
اسی لیے وہ ابراہیم اکارڈ کو صرف ایک امن معاہدہ نہیں سمجھتا بلکہ ایک تجارتی، دفاعی اور سیاسی "پیکیج" سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک مشرقِ وسطیٰ ایک مارکیٹ ہے جس کے مرکز میں اسرائیل، اردگرد خلیجی ریاستیں اور اوپر امریکہ "سپلائر" کی حیثیت سے بیٹھا ہے۔
ابراہیم اکارڈ کے تحت بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ لیکن اصل ہدف سعودی عرب تھا اور ہے۔ سعودی عرب اگر اس معاہدے کا حصہ بن جائے تو یہ ٹرمپ کی زندگی کی سب سے بڑی ڈیل ہوگی۔ کیونکہ سعودی عرب نہ صرف تیل کی طاقت رکھتا ہے بلکہ اسلامی دنیا کی "قبلہ گاہِ سیاست" بھی ہے۔
ٹرمپ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ بہت اہم ہے۔ 2018ء میں جب وہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن سے ملا تو دنیا خوفزدہ تھی کہ شاید تیسری جنگِ عظیم شروع ہونے والی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے سنگاپور میں کم جونگ اُن کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا:
"I looked him in the eyes, and I saw a man who wants to make a deal. "
(میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، وہاں ایک ایسا شخص تھا جو ڈیل کرنا چاہتا تھا۔)
یہ جملہ ٹرمپ کے مزاج کا آئینہ ہے۔ وہ دشمن کو دشمن نہیں سمجھتا، صرف ایک "پارٹنر" سمجھتا ہے جو ابھی قائل ہونا باقی ہے۔ وہ امن کی بات بھی سودے کی زبان میں کرتا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل-حماس بات چیت کے پیچھے ٹرمپ کی "واپس آتی آواز" سنائی دے رہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس تنازعے کو کسی "امن فریم ورک" میں بدل دیا گیا تو وہ ایک بار پھر وہی کر سکتا ہے جو اُس نے 2020ء میں کیا تھا۔ یعنی امن کو اپنی انتخابی مہم کا نعرہ بنا دینا۔
اسے یقین ہے کہ امریکی عوام پالیسی نہیں، نتائج دیکھتے ہیں اور ٹرمپ کے نزدیک نتائج صرف دو ہوتے ہیں: Deal Done یا Deal Broken.
ٹرمپ کی زندگی دراصل ایک "ڈیل بک" ہے۔ اس نے نیویارک کے دیوالیہ کیسینو کو دوبارہ زندہ کیا۔ ناکام کمپنیوں کو ٹرمپ برانڈ کے نام پر بیچا اور حتیٰ کہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی عارضی سمجھوتے کیے۔
ایک بار اُس نے کہا تھا:
"I can make peace even with the devil, if its a good deal. "
(میں شیطان سے بھی امن کر سکتا ہوں، اگر سودا اچھا ہو۔)
یہی اس کی کامیابی اور خطرہ دونوں ہیں۔ وہ انسانوں کو نہیں دیکھتا، صرف ڈیلز دیکھتا ہے۔ اسی سوچ نے اسے اسرائیل-فلسطین تنازعے کو بھی ایک کاروباری فریم میں دیکھنے پر مجبور کیا۔ غزہ کے معصوم بچوں کے خون سے زیادہ وہ اس کے بعد کے معاہدے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کیونکہ وہاں "پیس" ہے اور یہاں "پرافٹ"۔
اسلامی دنیا میں ابراہیم اکارڈ کے بارے میں دو آراء ہیں۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں استحکام لائے گا۔ دوسرا کہتا ہے یہ فلسطینیوں کی جدوجہد کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ سعودی عرب ابھی "مشروط خاموشی" میں ہے۔ جبکہ پاکستان روایتی احتیاط اور اسلامی یکجہتی کے بیچ لٹکا ہوا ہے۔
پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں، مگر وہ اس کھیل کو دور سے دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ ہر عالمی تبدیلی بالآخر کسی نہ کسی اقتصادی دباؤ کی شکل میں اسلام آباد کے دروازے پر آتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی یقین رکھتا ہے کہ وہ دنیا کو "ڈیل" کے ذریعے چلا سکتا ہے۔ لیکن دنیا کے کچھ مسائل، جیسے غزہ، اب سودے نہیں، انسانیت کے امتحان بن چکے ہیں اور شاید ٹرمپ کو یہ سمجھنے میں ابھی وقت لگے گا کہ ہر سودا نفع کے لیے نہیں ہوتا۔
کچھ سودے ضمیر کے لیے بھی کیے جاتے ہیں۔ آخر میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا ایک جملہ یاد آتا ہے:
"Peace is not a deal between powers, it is a promise to the powerless. "
(امن طاقتوروں کا معاہدہ نہیں، کمزوروں سے کیا گیا وعدہ ہوتا ہے۔)

