Balochistan: Reet, Raj Aur Rukawatein
بلوچستان: ریت، راج اور رکاوٹیں

کہتے ہیں برصغیر کے جنوب مغرب میں ایک سرزمین ہے جس کے سینے میں پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے بیچ ریت ہے اور ریت کے نیچے تاریخ دفن ہے۔ یہی بلوچستان ہے، وہ خطہ جسے اگر زمین کا خزانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن افسوس کہ اس کے باسی آج بھی تہی دست ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جس نے سلطنتوں کو جنم لیتے اور بکھرتے دیکھا، مگر خود کبھی وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی وہ مستحق تھی۔
انیسویں صدی کے وسط میں جب برطانوی سلطنت نے برصغیر میں قدم جمائے تو بلوچستان دراصل کئی ریاستوں کا مجموعہ تھا، ریاستِ قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ۔ ان ریاستوں کے سردار نیم خودمختار تھے لیکن انگریز ان کے سروں پر "پولیٹیکل ایجنٹ" کے ذریعے حکمرانی کرتے تھے۔ کراچی دراصل ریاست قلات کا حصہ تھا، مگر انگریزوں نے 1839ء میں قلات پر چڑھائی کے بعد کراچی کو الگ کرکے سندھ میں شامل کر دیا تاکہ انہیں ایک محفوظ سمندری بندرگاہ میسر آ سکے اور برصغیر کے جنوب میں انگریزی بحری طاقت کا تسلط قائم رہے۔
قلات کے آخری حکمران میر احمد یار خان نے 1947ء میں آزادی کے بعد چند ماہ تک پاکستان میں شمولیت سے انکار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان ایک خودمختار ریاست رہے، جس کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات ہوں مگر ماتحتی نہ ہو۔ لیکن تاریخ کا دھارا کچھ اور تھا۔ مارچ 1948ء میں بالآخر قلات پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔ یوں وہ خطہ جو کبھی مختلف ریاستوں کا مجموعہ تھا، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا، رقبے کے لحاظ سے بھی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی۔
تاہم یہ صوبے کی موجودہ شکل میں نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بلوچستان کو ایک "چیف کمشنر صوبہ" کی حیثیت دی گئی، جہاں براہِ راست وفاقی حکومت کا نمائندہ تعینات ہوتا تھا۔ بعد میں 1970ء میں جنرل یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں "ون یونٹ" کا خاتمہ کیا گیا تو بلوچستان کو باقاعدہ ایک مکمل صوبے کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی سال بلوچستان اسمبلی، صوبائی حکومت اور گورنر کا نظام تشکیل پایا۔ اس وقت بلوچستان کے سرداروں اور قومی رہنماؤں سے کچھ سیاسی و انتظامی شرائط پر اتفاق ہوا، مثلاً یہ کہ مرکز دفاع، خارجہ امور اور مالیاتی پالیسی اپنے پاس رکھے گا، مگر تعلیم، صحت، پولیس، معدنیات اور ترقیاتی منصوبوں پر صوبائی خودمختاری ہوگی۔ یہ وہ بنیاد تھی جس پر بلوچستان کو آئینی طور پر پاکستان کے چوتھے صوبے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
بلوچستان میں آج بھی "پولیس" نہیں، وہاں فرنٹیئر کور (ایف سی) ہے۔ یہ دراصل انگریزوں کے دور کی تخلیق ہے۔ انگریزوں نے قبائل کے بااثر سرداروں سے وفاداری کے عوض ان کے مسلح دستوں کو اپنے زیرِ کمان کر لیا۔ انہیں بندوبست دیا گیا، تنخواہیں مقرر ہوئیں اور یہ فوجی دستے برطانوی حکومت کے ماتحت آ گئے۔ آزادی کے بعد یہی دستے ایف سی کہلائے۔ ان کی تنخواہیں وفاق دیتا رہا، مگر بھرتی، کمان اور اثر و رسوخ مقامی سرداروں کے پاس رہا۔ یوں ایف سی ایک عجیب امتزاج بن گئی، وردی وفاق کی، لیکن حکم سردار کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ایف سی کو ایک باقاعدہ سول فورس نہیں سمجھا گیا بلکہ ایک نیم فوجی طاقت کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے، جو امن و امان سے زیادہ سیاسی توازن کا آلہ بنی رہی۔
بلوچستان کی پسماندگی کی کہانی طویل ہے، مگر مختصر یہ کہ یہاں کا اصل مسئلہ نہ وسائل کی کمی ہے، نہ وفاقی لاپرواہی، بلکہ سرداری نظام ہے۔ سرداروں اور نوابوں نے اپنے علاقوں کو جاگیر سمجھا۔ وہاں اسکول بنے نہ اسپتال۔ عوام کو غلام رکھا گیا تاکہ وہ سوال نہ کریں، ووٹ مانگنے کی نوبت نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کے اکثر دیہات میں نہ سڑک ہے نہ بجلی، مگر انہی سرداروں کے محلات دبئی، لندن اور اسلام آباد میں جگمگا رہے ہیں۔ عام بلوچ آج بھی پانی کی ایک بوند کے لیے میلوں سفر کرتا ہے، جبکہ اس کے حکمرانوں کے لیے ہر سہولت میسر ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں جب آصف علی زرداری صدر تھے تو وفاق نے بلوچستان کے لیے ایک بڑا پیکیج دیا، "آغازِ حقوقِ بلوچستان"۔ سرکاری اندازے کے مطابق یہ رقم اتنی زیادہ تھی کہ اگر اسے صوبے کے ہر شہری میں تقسیم کیا جاتا تو ہر بلوچی کے حصے میں تقریباً سوا کروڑ روپیہ آتا اور پھر بھی اربوں روپے بچ جاتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ رقم کہاں گئی؟
وفاق نے فنڈز جاری کیے، لیکن صوبائی حکومت، جو انہی سرداروں کے ہاتھ میں تھی، نے ترقیاتی منصوبے زمین پر اتارنے کے بجائے فائلوں میں دفن کر دیے۔ اسپتالوں کی عمارتیں خالی کھڑی رہیں، اسکولوں میں اساتذہ غائب رہے اور سڑکوں پر بجٹ کے بورڈ لگے مگر سڑک نہ بنی۔ صوبائی وزرا نے ترقیاتی بجٹ کو ذاتی جیبوں میں منتقل کیا اور جب وفاق نے سوال کیا تو جواب یہی ملا کہ "پنجاب ہمارا حق کھا گیا"۔
پھر بھی الزام پنجاب پر، وفاق پر اور باقی پاکستان پر لگا۔ حالانکہ کسی نے ان سرداروں کو نہیں روکا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں تعلیم، روزگار یا صحت کی سہولتیں فراہم نہ کریں۔ ان کی مرضی تھی، مگر انہوں نے اپنی رعایا کو اندھیرے میں رکھا تاکہ ان کی سرداری زندہ رہے۔
بلوچستان آج بھی وہی سوال پوچھ رہا ہے جو ستر سال پہلے پوچھا تھا۔
"ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟"
جواب سادہ ہے: کیونکہ وہاں ترقی کی راہ میں بندوق نہیں، سرداری کھڑی ہے۔

