Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Apni Zuban, Apni Pehchan

Apni Zuban, Apni Pehchan

اپنی زبان، اپنی پہچان

کہتے ہیں دنیا کی ہر قوم کے دل میں ایک دھڑکن ہوتی ہے، اپنی زبان کی دھڑکن۔ زبان صرف لہجہ نہیں ہوتی، یہ نسلوں کی یادیں، تہذیبوں کی خوشبو اور صدیوں کی تاریخ ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے، پوری دنیا میں زبان پہ فخر کیا جاتا ہے، مگر ہم پاکستانی، خصوصاً پنجابی، اپنی ہی زبان سے جھجکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کراچی کی روشن گلیوں میں آپ کسی سندھی سے بات کریں، وہ فخر سے کہتا ہے: "مانھون سندھی آھیاں"۔

پشاور میں پشتون سے گفتگو ہو تو وہ سینہ تان کر پشتو بولتا ہے، اس کے لہجے میں غیرت، اعتماد اور تاریخ کی دھڑکن ساتھ چلتی ہے۔

بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں میں بلوچ جب بلوچی بولتا ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوہِ سلیمان کی چٹانیں بول رہی ہوں۔

لیکن، پنجاب میں؟

یہاں معاملہ اُلٹا ہے۔

پنجابی ماں بولی ہوتے ہوئے بھی پنجابی بولنے میں جھجک محسوس کرتا ہے۔ جیسے پنجابی بولنا کوئی "کم تر" ہونے کی نشانی ہو۔ جیسے اپنی زبان صرف گھر کے صحن اور دیہات کی بیٹھک تک محدود ہو، شہروں میں بولنا "بے عزتی، جہالت اور آنپڑھ" سمجھا جائے۔

یہ شرمندگی کیوں؟ یہ احساسِ کمتری کہاں سے آیا؟

شاید کالونیل دور کی وہ بدقسمت وراثت جس نے ہمیں یقین دلا دیا کہ "گریس"، "ایٹی کیٹ" اور "کلاس" کا نام انگریزی ہے اور ہماری اپنی زبانیں محض دیہاتی علامتیں۔

یہی کیفیت ہمارے حکمرانوں میں بھی نظر آتی ہے۔

آپ دنیا کے کسی بھی ملک کے سربراہ کو دیکھ لیں۔ فرانس کا صدر فرانسیسی میں۔ روس کا صدر روسی میں۔ ترکی کا صدر ترکی میں۔ ایران کے رہنما فارسی میں۔ چین کا صدر چینی میں۔ جاپان کا وزیرِاعظم جاپانی میں۔ یہاں تک کہ مشرقِ وسطیٰ کے حکمران بھی عربی میں گفتگو کرتے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں جاتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، سب اپنی زبان میں۔ کیوں؟

کیونکہ زبان ان کی شناخت ہے، ان کا وقار ہے، ان کی ریاست کا چہرہ ہے۔ مگر پاکستان میں؟ ہمارے وزراے اعظم، ہمارے وزراء اور ہمارے سربراہان، بیرونِ ملک ہوں یا کوئی غیر ملکی پاکستان آئے، فوراً انگریزی پر شفٹ ہو جاتے ہیں۔ جیسے اپنی زبان میں بات کرنا عالمی سطح پر ناکامی ہو۔

یہاں ایک مثال ہمیشہ حیران کرتی ہے۔ چین کے بانی ماؤ زے تنگ۔ انہیں انگریزی پر کمال عبور حاصل تھا۔ انگریزی کتابیں پڑھتے تھے، ان پر نوٹس لکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تو سمجھ آجاتا تھا مگر چہرے پر ایک بھی تاثر نہ آتا اور جب وہی لطیفہ چینی زبان میں سنایا جاتا تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتے تھے۔

ماؤ کا مشہور جملہ تھا: "میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چین گونگا نہیں، قدرت نے اسے بھی ایک زبان دی ہے"۔

یہ جملہ صرف زبان نہیں، پوری قوم کی شناخت کی علامت تھا۔ کیوں کہ زبان صرف الفاظ نہیں، جذبات کا دروازہ ہے۔ اپنی زبان کی خوشی، دوسروں کی زبان میں محسوس ہی نہیں ہوتی۔

دنیا کے کئی اور لیڈروں کو بھی دیکھیں: ہوگو شاویز اقوام متحدہ میں ہسپانوی میں تقریر کرتے تھے۔ مہاتیر محمد ہمیشہ ملی زبان میں خطاب کرتے تھے۔ ولادیمیر پوتن عالمی فورمز پر روسی بولتے ہیں۔ رجب طیب اردوان ہر جگہ ترکی بولتے ہیں، چاہے سامع کوئی بھی ہو۔

یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ زبان پر فخر، قوم پر فخر کی نشانی ہے۔ پھر سوال وہی۔ سندھ والے سندھی پر ناز کرتے ہیں، پشتون پشتو پر، بلوچ بلوچی پر۔ تو پنجابی اپنی زبان پر شرمندہ کیوں؟

ہماری نئی نسل پنجابی بولنے سے گھبراتی ہے۔ ہمارا میڈیا پنجابی پروگراموں کو "لوکل" سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام پنجابی، سرائکی، ہندکو اور براہوی کو صرف "علاقائی زبانیں " قرار دے کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس احساسِ کمتری سے نکلیں۔ زبان بدلنے سے ترقی نہیں ہوتی، ذہن بدلنے سے ہوتی ہے۔

اگر آج ہم نے اپنی زبانوں کو عزت دے دی۔ تو آنے والی نسلیں وہ جھجک اور وہ گھبراہٹ نہیں اٹھائیں گی جو ہم اٹھا رہے ہیں۔ پنجاب میں پنجابی کا احترام بحال ہوگا۔ تو پاکستان میں بھی زبان کی عزت واپس آئے گی۔

دنیا کے لیڈر اپنی زبان بول کر طاقتور ہیں۔ کیا ہم انگریزی بول کر کبھی طاقتور بن سکے ہیں؟ اگر نہیں۔ تو شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم دوبارہ اپنی آواز تلاش کریں۔ اپنی زبان میں۔ آخر میں نیلسن منڈیلا کا مشہور قول کہ "اگر آپ کسی شخص سے اس زبان میں بات کریں جسے وہ سمجھتا ہے تو بات اس کے ذہن تک جاتی ہے اور اگر آپ اس کی اپنی زبان میں بات کریں تو یہ سیدھی اس کے دل تک پہنچتی ہے"۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz