America, Bharat Aur Khittay Ka Naya Tawazun
امریکہ، بھارت اور خطے کا نیا توازن

کبھی صدر آیزن ہاور نے کہا تھا، "امریکہ کے مفادات کے نہ کوئی مستقل دشمن ہوتے ہیں، نہ دوست، صرف مقاصد ہوتے ہیں"۔
آج اس جملے کی معنویت ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر واضح ہو رہی ہے۔ کل تک جو ملک امریکی دوستی کی مثالیں دے رہا تھا، آج وہی ملک اس معاہدے پر حیرت سے امریکہ کو دیکھ رہا ہے اور جو ملک کل تک واشنگٹن کے خلاف تقریریں کر رہا تھا، وہی آج اس کے ساتھ "دس سالہ دفاعی معاہدہ" کرکے نئے باب کا آغاز کر رہا ہے۔
آج کوالالمپور میں امریکی وزیرِ جنگ پیٹ ہیگ سیتھ اور بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ایسا معاہدہ سائن کیا ہے جو صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں، بلکہ آنے والی دہائی کے سیاسی توازن کا پیش خیمہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک دفاعی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس معلومات اور عسکری پیداوار میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہوں گے۔ تقریب میں مسکراہٹیں زیادہ تھیں، لیکن ان مسکراہٹوں کے پیچھے خطّے کے کئی ملکوں کے چہرے مرجھا گئے۔
یہ معاہدہ اچانک نہیں ہوا۔ چند ہفتے پہلے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات رسمی تھی مگر گفت و شنید غیر رسمی۔ دونوں رہنماؤں نے "انڈو پیسیفک کے استحکام" کی بات کی، لیکن اصل گفتگو دفاعی تعاون اور روس سے دوری پر ہوئی۔ اس ملاقات کے فوراً بعد امریکی پالیسی تھنک ٹینکوں میں "نئی دہائی، نیا فریم ورک" کے عنوان سے مقالے گردش میں آنے لگے اور آج وہی خاکہ دستخطوں کی صورت میں سامنے آ گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی چند دن پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک جلسے میں کہا تھا: "میں نے نریندر مودی سے بات کی ہے اور انہوں نے روس سے تیل نہ خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے"۔ ان کے لہجے میں اعتماد تھا اور پیغام واضح، امریکہ بھارت کو اپنی توانائی پالیسی میں روس سے الگ کر رہا ہے۔ لیکن اسی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا، "They are great guys. "
وہ سات بھارتی طیارے گرنے کی بات ہر جگہ دہراتے ہیں، مودی کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر جب موقع آتا ہے تو دفاعی معاہدہ انہی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے: آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟
جواب آسان ہے، امریکہ کو نظریات نہیں، مفادات عزیز ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جو ایک ہاتھ سے تمہیں داد دیتا ہے، دوسرے سے تمہارے حریف کو معاہدہ۔ اس کی پالیسی ہمیشہ دو دھاری رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان کو خطّے میں "کلیدی اتحادی" کہا جاتا ہے، دوسری طرف بھارت کو "اہم دفاعی شراکت دار"۔ امریکی قوم کا مزاج یہی ہے۔ وہ جذبات سے نہیں، اعداد سے فیصلہ کرتی ہے۔ ان کے لیے دوستی کا مطلب ہے سرمایہ، ٹیکنالوجی اور اثر و رسوخ۔ انہیں یہ فکر نہیں کہ ماضی میں کس نے قربانیاں دیں، وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں کون زیادہ نفع دے سکتا ہے۔ اسی لیے آج امریکہ بھارت کے ساتھ ہے، کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے، دفاعی صنعت کا گاہک ہے اور چین کے مقابل توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بھی۔
لیکن اس کہانی کا دوسرا رخ پاکستان ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ خطّے کا عسکری توازن بگڑ سکتا ہے۔ بھارت کو جدید امریکی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ انٹیلی جنس اور مشترکہ پیداوار کے منصوبوں تک رسائی ملے گی۔ اس کے مقابل پاکستان کو اپنی دفاعی اور سفارتی حکمتِ عملی پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا۔ چین کے ساتھ قریبی روابط مزید اہم ہو جائیں گے۔ ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو وسعت دینا ہوگی اور سب سے بڑھ کر، اسلام آباد کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس نئی سرد جنگ میں کس صف میں کھڑا ہے۔
امریکہ کا اصل مقصد بھارت کے ذریعے چین کو روکنا، روس کا اثر کم کرنا اور جنوبی ایشیا میں ایک ایسا اتحادی بنانا ہے جو واشنگٹن کے لیے "خودمختار مگر تابع" کردار ادا کرے۔ بھارت خوش ہے کیونکہ اسے عالمی سطح پر طاقت کا تاثر مل رہا ہے۔ امریکہ مطمئن ہے کیونکہ اسے خطّے میں اپنی آنکھ، کان اور ہاتھ سب مل گئے ہیں۔
اور پاکستان؟ پاکستان ایک بار پھر مفادات کی اس بساط پر تیسرا کھلاڑی ہے، جسے نہ تو مکمل نظرانداز کیا جا سکتا ہے، نہ مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ناگزیر ہے، اس لیے وہ تعریفیں بھی کرتا ہے۔ لیکن دوستی؟ وہ ہمیشہ مشروط رہی ہے۔
یہی امریکہ ہے، جو تمہیں کندھے پر تھپکی دیتا ہے اور اگلے لمحے تمہارے مخالف کو اسلحہ اور جیسا کہ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ایک بار کہا تھا: "سیاست میں دوستی مستقل نہیں ہوتی، صرف مفادات ہوتے ہیں"۔

