Afghanistan, Jo Kabhi Azad Nahi Raha
افغانستان، جو کبھی آزاد نہیں رہا

کابل کی سرد ہواؤں میں جب شام اترتی ہے تو فضا میں ایک عجیب سا دکھ تیرنے لگتا ہے۔ پتھریلی گلیوں میں صدیوں پرانی داستانوں کی گرد اڑتی ہے، وہی داستانیں جو ہر نسل اپنے لہجے میں دہراتی رہی، کہ ہم افغان ناقابلِ شکست ہیں، ہمیں کسی نے کبھی فتح نہیں کیا، ہم آزاد پیدا ہوئے اور آزاد مرتے ہیں۔
یہ جملہ آج بھی افغانوں کے ہونٹوں پر فخر سے بہتا ہے، لیکن تاریخ کی کتابیں کچھ اور کہتی ہیں۔ اگر کسی نے سچ مچ افغانستان کی تاریخ کے صفحات پلٹے ہوں تو وہ جانتا ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ کسی نہ کسی کے زیرِ سایہ رہا، کبھی شمشیر کے زور پر، کبھی درہم و دینار کے سحر میں۔
تاریخ کے ابتدائی ابواب اٹھا لیں تو یہاں آریائی، ہخامنشی، سلوکی، موریہ، یونانی، باختریائی، ساسانی، عرب، ترک، مغل، صفوی، درانی، انگریز، روسی اور امریکی سب گزرے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک طاقت آئی، کچھ مدت کے لیے بیٹھی، لوٹی اور پھر اگلی طاقت نے اس کی جگہ لے لی۔ اگر "فتح نہ ہونے" کا مطلب یہ ہے کہ کوئی سلطنت یہاں ہمیشہ نہیں ٹک سکی تو ہاں، یہ بات درست ہے، مگر اگر مطلب یہ لیا جائے کہ افغانستان پر کبھی کسی نے راج نہیں کیا، تو یہ تاریخ کے منہ پر تھپڑ کے مترادف ہے۔
سکندرِ اعظم سے آغاز کیجیے۔ 330 قبل مسیح میں جب یونانی فوجیں یہاں پہنچیں تو افغان قبائل نے بہادری سے مزاحمت کی، مگر آخرکار سکندر نے یہاں اپنے گورنر بٹھائے اور بامیان سے لے کر قندھار تک اپنی مہر ثبت کر دی۔ پھر ہند یونانی آئے، موریہ، کشان، ساسانی، غزنوی، غوری، مغل، سب نے اس دھرتی پر حکومت کی۔ عرب خلافت نے یہاں اسلام کا پرچم لہرایا اور خراسان کا علاقہ صدیوں تک مسلم اقتدار کا مرکز رہا۔
پھر احمد شاہ ابدالی آیا، جس نے 1747ء میں جدید افغانستان کی بنیاد رکھی۔ مگر وہ "آزادی" بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہی۔ اس کے بعد جب برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا تو افغانستان اس کے اور روس کے درمیان ایک شطرنج کی بساط بن گیا۔ تین بڑی اینگلو-افغان جنگیں ہوئیں، کابل جلایا گیا، بادشاہ بدلے، سرحدیں کھینچی گئیں۔ برطانوی افسر سر لوئیس کیوگن نے اپنی ڈائری میں لکھا: "افغان تلوار سے زیادہ سونے سے متاثر ہوتا ہے"۔
یہی وہ کمزور نکتہ ہے جو ہر دور کے حملہ آور نے استعمال کیا، کبھی دباؤ سے، کبھی دولت سے، کبھی مذہب کے نام پر۔
انیسویں صدی کے وسط میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت عروج پر تھی، تو افغانستان کا ایک بڑا حصہ اس کے اثر میں آ چکا تھا۔ رنجیت سنگھ نے قندھار، پشاور اور کابل کے قریب تک اپنے اثرات پھیلا لیے۔ افغان سردار اس کے دربار میں آتے، تحفے دیتے اور اس کی رضا کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتے۔ اس نے اپنے جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے ذریعے پشاور کو افغان تسلط سے نکالا اور کئی برس تک پشتون خطے رنجیت سنگھ کے زیرِ انتظام رہے۔ اس دور میں بھی افغان قبائل بغاوتیں کرتے رہے، لیکن حقیقت یہی تھی کہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں وہ پوری طرح آزاد نہ تھے۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی۔ روسی آ گئے، پھر امریکی۔ 1979 میں جب سوویت یونین نے افغانستان میں قدم رکھا، تو امریکیوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں اور میڈیا کے ذریعے افغانوں کے ذہنوں میں وہی جملہ بھرا، "تم ناقابلِ شکست ہو، تم آزادی کے سپاہی ہو"۔ یہ نعرہ صرف حوصلہ نہیں تھا، ایک منصوبہ تھا۔ یونیورسٹی آف نبراسکا میں افغان جہاد کے لیے بننے والے نصابی کورسز، مجاہدین کے نغمے، تصویری کتابیں، سب اسی پراپیگنڈے کا حصہ تھے۔ پاکستان بھی اس کھیل کا شریکِ کار تھا، کیونکہ اسے روس کے مقابلے میں ایک مضبوط مسلمان مورچہ چاہیے تھا۔
یوں "ناقابلِ فتح" کا نعرہ دراصل امریکی مفاد کے لیے تراشا گیا فکری ہتھیار تھا، جس نے افغان قوم کو ایک خواب میں مبتلا کر دیا۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ افغانستان کبھی آزاد نہیں رہا۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی طاقت اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی، کبھی دہلی سے، کبھی لندن سے، کبھی ماسکو سے، کبھی واشنگٹن سے اور جب طاقت کمزور ہوئی تو خود افغان سرداروں نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھا لیں۔ اس ملک میں بیرونی طاقتوں کو روکنے سے زیادہ اندرونی اتحاد قائم کرنا ہمیشہ مشکل رہا۔
آج کے افغانستان میں جو حکمران ہیں، ان میں سے کئی پاکستان کے رہائشی رہے۔ بعض نے پشاور اور کوئٹہ میں برسوں قیام کیا، کچھ نے کراچی میں کاروبار کیا، کئی کے بچے اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھے۔ طالبان کے متعدد رہنما پاکستان میں تعلیم یافتہ ہیں، کچھ کے خاندان اب بھی یہاں تجارت کرتے ہیں۔ پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں افغان تاجروں کے پلازے، فلیٹ اور کاروبار آج بھی موجود ہیں۔ افغانستان کا ہر دور پاکستان سے کسی نہ کسی طرح جڑا رہا، کبھی پناہ کے ذریعے، کبھی سیاست کے ذریعے، کبھی جنگ کے ذریعے۔ پاکستان نے انہیں سرزمین دی، پناہ دی، علاج دیا، تجارت کے راستے دیے۔ مگر شاید یہی احسانات آج سب سے زیادہ فراموش کیے گئے ہیں۔
افغانستان ایک سخت مزاج قوم ضرور ہے، مگر یکجان کبھی نہیں رہی۔ ان کی وفاداری ہمیشہ قبیلے، سردار یا مفاد سے بندھی ہے۔ انہیں بندوق سے دبایا جا سکتا ہے، پیسے سے خریدا جا سکتا ہے، مگر اصولوں سے نہیں باندھا جا سکتا۔ یہی ان کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔
آج اگر کوئی افغان نوجوان کہے کہ "ہم آزاد لوگ ہیں، کسی کے غلام نہیں"، تو مسکرا دینا چاہیے۔ کیونکہ جس قوم کی تاریخ ہر صفحے پر کسی نہ کسی بیرونی طاقت کے دستخط سے بھری ہو، اسے "آزاد" کہنا تاریخ کے ساتھ مذاق ہے۔

