Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar Shahzad
  4. Afghanistan, Badshahat Se Bandooq Tak

Afghanistan, Badshahat Se Bandooq Tak

افغانستان، بادشاہت سے بندوق تک

کابل کی ایک شام تھی۔ ارغوان کے پھولوں سے لدی سڑکوں پر نوجوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹہل رہے تھے۔ لڑکیاں سر پر ہلکے دوپٹے، جینز اور دپٹے کے سنگم میں خود کو جدید دنیا کا حصہ محسوس کر رہی تھیں۔ کیفے ہاؤسز میں گٹار بجتے تھے، طلبہ سیاست پر بحث کرتے تھے اور ریڈیو کابل پر انگریزی گانے نشر ہوتے تھے۔

یہ 1960 کی دہائی تھی، بادشاہ ظاہر شاہ کا افغانستان۔

ظاہر شاہ 1933ء سے 1973ء تک افغانستان کے بادشاہ رہے۔ ان کے دور کو افغان تاریخ کا سب سے لبرل، مستحکم اور جدید دور کہا جاتا ہے۔ انہوں نے آئینی بادشاہت متعارف کروائی، تعلیمی ادارے قائم کیے، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کی اجازت دی اور بین الاقوامی تعلقات میں غیرجانبدار پالیسی اپنائی۔ کابل اس وقت "ایشیا کا پیرس" کہلاتا تھا۔ مغربی سیاح ہپی کلچر کے ساتھ افغانستان آتے اور افغان حکومت انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہتی۔ مذہب زندگی کا حصہ ضرور تھا، مگر سیاست کا محور نہیں۔

مگر تاریخ کے پہیے کبھی ایک رفتار پر نہیں چلتے۔ 1973ء میں، جب ظاہر شاہ علاج کی غرض سے اٹلی میں تھے، ان کے کزن اور سابق وزیراعظم سردار محمد داود خان نے فوجی بغاوت کرکے تختہ الٹ دیا۔ ظاہر شاہ کا دور ختم ہوا اور افغانستان میں بادشاہت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

سردار داود نے خود کو صدرِ جمہوریہ قرار دیا، مگر یہ جمہوریت نہیں بلکہ شخصی اقتدار تھا۔ ابتدائی طور پر سردار داود سوویت یونین کے قریب رہے۔ روس نے انہیں تختہ الٹنے میں درپردہ مدد دی تھی، تاکہ افغانستان میں ایک "دوست حکومت" قائم ہو۔ لیکن داود جلد ہی روس سے بدظن ہو گئے۔ انہوں نے قوم پرستی، پشتونستان کے نعرے اور آزاد خارجہ پالیسی کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے افغانستان کو جدید بنانا چاہا، خواتین کو زیادہ حقوق دیے، لباس اور تعلیم میں آزادی کو فروغ دیا اور مغربی طرزِ ترقی کی راہ اپنائی۔

ان کے دور میں کابل مزید کھلنے لگا، ایک طرف قومی خودمختاری کا شعور بیدار ہوا، تو دوسری طرف مذہبی طبقہ ان کی پالیسیوں سے خائف ہونے لگا۔ لیکن یہی آزاد روی اور روس سے دوری ان کے لیے خطرہ بن گئی۔

روس کو خدشہ ہوا کہ داود امریکہ کے قریب جا رہے ہیں۔ چنانچہ اپریل 1978ء میں کمیونسٹ جماعت "خلق پارٹی" نے روسی حمایت سے سردار داود کا تختہ الٹ دیا۔ داود خان اور ان کے پورے خاندان کو کابل کے صدارتی محل میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان کی لاشیں برسوں تک لاپتہ رہیں۔

2008ء میں جب کابل کے نواح میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی، تو ڈی این اے ٹیسٹ اور داود خان کے جبڑے کے ایک پرانے ایکسرے کی مدد سے ان کی شناخت کی گئی۔ انہیں بعد ازاں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، مگر تاریخ میں ان کا انجام ایک ایسے شخص کا بن گیا جو ترقی چاہتا تھا مگر طاقت کے کھیل میں پِس گیا۔ یوں افغانستان کا سفر بادشاہت سے بندوق تک پہنچ گیا۔

خلق پارٹی نے اشتراکی نظام نافذ کیا۔ مذہب کو دبایا گیا، علما کو جیلوں میں ڈالا گیا اور دیہات میں جبراً اصلاحات نافذ ہوئیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔ اسلامی جذبات بھڑک اٹھے اور پھر 1979 میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب افغان مزاحمت نے جنم لیا اور دنیا نے "جہاد" کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔

امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی حمایت شروع کی۔ یہ حمایت صرف ہتھیاروں اور پیسوں تک محدود نہ تھی، مدارس میں ایک نیا بیانیہ تخلیق ہوا: "جہاد روس کے خلاف نہیں، کفر کے خلاف ہے"۔

یوں ایک نئی نسل تیار ہوئی، وہ جو بندوق کو ایمان کا نشان سمجھنے لگی۔ روس 1989ء میں شکست کھا کر واپس چلا گیا، مگر افغانستان میدانِ جنگ بنا رہا۔ مجاہدین آپس میں لڑنے لگے۔ کابل ملبے میں بدل گیا اور انہی کھنڈروں سے طالبان اُبھرے۔

یہ 1994ء کا زمانہ تھا۔ طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ امن لائیں گے، بدعنوانی ختم کریں گے اور اسلام کا نظام نافذ کریں گے۔ ابتدا میں لوگوں نے خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی ان کی تلوار قانون بن گئی۔ لڑکیاں اسکولوں سے نکال دی گئیں، موسیقی ممنوع ہوئی اور مذہب کو طاقت کے ترازو میں تولنے کا رواج پڑ گیا۔

پھر 1996ء میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان پہلی بار ایک خالص مذہبی ریاست بن گیا۔ اسی دوران القاعدہ نے افغانستان میں ڈیرے ڈالے۔ اسامہ بن لادن نے طالبان کی پناہ میں امریکہ کے خلاف عالمی جہاد کا اعلان کیا۔ 11 ستمبر 2001ء کو جب نیویارک کے ٹاور گرے، تو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ طالبان حکومت ختم ہوئی، مگر جنگ نہیں۔

اگلی دو دہائیوں میں امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کیے، مگر افغانستان کا مزاج نہیں بدلا۔ جدید یونیورسٹیاں بنیں، مگر دیہات کے مدارس مضبوط رہے۔

2021ء میں امریکی فوج چلی گئی اور طالبان واپس آ گئے۔ وہی سوچ، وہی سختی، وہی تقدیر۔ افغانستان نے کبھی بادشاہت کی شکل میں روشن خیالی دیکھی، کبھی جمہوریت کے نام پر خون۔ کبھی روس کے زیرِ سایہ لادینیت، کبھی طالبان کے ہاتھوں مذہب کی تنگ تشریح اور آج بھی کابل کی ہواؤں میں وہی دکھ تیرتا ہے۔ کہ اگر ظاہر شاہ کا کابل زندہ ہوتا تو شاید آج بھی وہاں ارغوان کے پھول کھلتے اور لڑکیاں خوف کے بجائے خوشبو پہنتیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan