27wi Aeeni Tarmeem
ستائیسویں آئینی ترمیم

کبھی کبھی تاریخ خود حیران رہ جاتی ہے۔ امریکہ، جس نے 1776ء میں آزادی حاصل کی، اس کا آئین 1787ء میں منظور ہوا اور پہلی آئینی ترمیم 1791ء میں، یعنی آئین بننے کے چار سال بعد، شامل کی گئی۔ وہ ترمیم آزادی اظہار، مذہب، پریس اور احتجاج کے حق سے متعلق تھی۔ گزشتہ دو سو اڑتیس (238) برسوں میں امریکی آئین میں صرف ستائیس ترامیم ہوئیں اور ان میں سے اکثریت عوامی آزادیوں کے تحفظ، عدلیہ کی خودمختاری اور حکمرانوں کی جوابدہی کے لیے کی گئیں۔
یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی آئین کو ہمیشہ عوامی حقوق کی ضمانت کے طور پر مضبوط کیا گیا۔ فرانس نے اپنی پہلی بڑی آئینی اصلاح 1789ء کے انقلاب کے بعد انسانی آزادیوں کے اعلامیے کی صورت میں کی۔ برطانیہ میں اگرچہ تحریری آئین نہیں، لیکن ہر ترمیم نے شہری حقوق کو وسعت دی، حکمران کے اختیارات کو نہیں۔
مگر پاکستان میں تاریخ ہمیشہ اُلٹی لکھی جاتی ہے۔ دنیا کی جمہوریتیں ترمیم سے آزادی بڑھاتی ہیں، ہم ہر ترمیم کے ذریعے اختیارات سمیٹتے ہیں اور اب سامنے ہے ستائیسویں آئینی ترمیم، جو بظاہر انتظامی اصلاحات کی بات کرتی ہے، مگر اصل میں یہ طاقت کے نئے مرکز قائم کر رہی ہے۔
اس ترمیم کے تحت صدر مملکت کو ایسا استثنٰی حاصل ہوگا جو کسی جمہوریت میں شاید ہی موجود ہو۔ صدر اب نہ صرف اپنے افعال پر کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے بلکہ ان کے فیصلوں کو چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ استثنٰی جمہوری نہیں، بادشاہی نوعیت کا ہے۔ اس میں مزید اضافہ یہ ہے کہ صدر کو یہ استثنٰی تاحیات حاصل ہوگا، یعنی وہ اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے کے بعد بھی اپنے فیصلوں پر کسی قسم کی عدالتی کارروائی یا سوال کے تابع نہیں ہوں گے۔ گویا صدر اب "علامتی سربراہ" نہیں رہے، بلکہ ایک ایسا منصب بننے جا رہا ہے جس کے پاس "نو کہو، سب کچھ ہو" کی طاقت ہوگی۔
فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر اور مارشل آف ایڈمرل اب فائیو اسٹار ہوں گے اور تاحیات یونیفارم پہننے کے مجاز ہوں گے۔ انہیں نہ صرف وہی پروٹوکول دیا جائے گا جو سروس کے دوران حاصل تھا، بلکہ حکومت اگر چاہے تو انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی بھی وقت کوئی ذمہ داری سونپ سکتی ہے۔
اس ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر کو موجودہ چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد ختم کر دیا جائے گا۔ یہ وہی عہدہ ہے جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔
بھٹو صاحب نے ایک دن اپنے قریبی فوجی مشیر جنرل یوسف سے کہا: "ہمیں ایسا کوئی عہدہ چاہیے جو آرمی چیف کے اختیارات کو توازن میں رکھ سکے"۔
جنرل یوسف نے اس کے لیے ایک مسودہ تیار کیا، مگر ان کے ذہن میں ایک اور خواب تھا، آرمی چیف بننے کا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ہی مسودے میں آرمی چیف کے اختیارات کم کرنے کے بجائے یہ شق ڈال دی کہ جنگ کے ماحول میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے پاس تینوں افواج کے اختیارات ہوں گے۔ یعنی جنگ میں آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہ چیئرمین کے ماتحت ہوں گے۔ یہ مسودہ کابینہ سے بھی منظور ہوا، پارلیمنٹ سے بھی اور آئین کا حصہ بن گیا۔
لیکن سیاست کی بازی وہیں الٹ گئی، بھٹو صاحب نے انہیں آرمی چیف نہیں بنایا، بلکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بنا دیا۔ یوں وہ عہدہ جو طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، خود طاقت سے محروم کر دیا گیا۔
اب ستائیسویں ترمیم کے تحت ایک نیا عہدہ تشکیل پا رہا ہے، چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF)۔ یہ وہی ماڈل ہے جو بھارت میں نریندر مودی نے 2019ء میں جنرل بپن راوت کے لیے بنایا تھا۔ پاکستان میں بھی یہی راستہ اپنایا جا رہا ہے، یعنی پرانے ادارے کو ختم کرکے ایک نیا، زیادہ اختیارات والا منصب پیدا کرنا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کی ہر ترمیم نے طاقت کو ایک طرف سمیٹا اور جمہوریت کو کمزور کیا تو کیا یہ ترمیم بھی اسی سلسلے کی نئی کڑی نہیں؟
دنیا میں آئینی ترامیم عوام کے حق میں لکھی جاتی ہیں۔ امریکہ میں پہلی ترمیم نے اظہارِ رائے کو تحفظ دیا۔ برطانیہ میں ہر ترمیم نے پارلیمنٹ کو طاقتور کیا۔ فرانس میں اصلاحات نے بادشاہت کو ختم کیا اور پاکستان میں، ہر ترمیم نے طاقت کے گلیاروں میں ایک نیا بادشاہ پیدا کیا۔
ستائیسویں ترمیم بھی اسی داستان کا نیا باب ہے۔ یہ آئینی نہیں، سیاسی انجینئرنگ کی نئی شکل ہے، جس میں جمہوریت کا چہرہ باقی رکھا گیا ہے، مگر اس کے جسم میں بادشاہت کا خون دوڑا دیا گیا ہے۔
آخر ہماری حکومتیں اور سیاستدان تمام اختیارات اپنے گرد جمع کرنے میں کیوں لگے رہتے ہیں؟ جمہوریت کو اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ کیوں نہیں کرتے؟ اور عوامی فلاح و مفاد کو ذہن میں رکھ کر ترامیم کیوں نہیں کرتے؟
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارا آئین نہیں، طاقتور طبقے کے مفادات بدلتے ہیں اور ہر نئی ترمیم محض ایک اعلان ہے کہ جمہوریت اب بھی "پہلے اجازت لے کر" چلتی ہے۔

