The Curse Of Bacha Bazi
دی کرس آف بچہ بازی
آج ہم اس اہم موضوع پر بات کریں گے۔ جس سے ہر کوئی آنکھ بند کرکے آگے نکل جاتا ہے لیکن حقیقت آنکھ بند کرنے سے کہا ختم ہوتی ہے۔ آئیے آج اس پر گفتگو کرتے ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں یہ بہت پرانا المیہ ہے اور کبھی آپکے کانوں اور نظروں کے سامنے بھی ایسی باتیں گزری ہوگی۔
ہمارے ہاں اسکول سے لے کر یونیورسٹی اور مدرسوں سے لے کر ٹرک کے اڈا اور جنرل بس سٹینڈ تک یہ معاملہ جاری ہے اور صدمہ کی بات یہ ہے کہ ہم ایسی باتوں پر ہنستے ہیں اور ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ ہمیں یہ باتیں معمول لگنے لگتی ہے اور ہمیں اس پر کوئی شرم ساری نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے اس چیز میں ہر طبقے کا بندہ شامل ہے ہر عمر کا بندہ شامل ہے۔
اکثر یہ معاملہ ان بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، جن کی عمر 19-11 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ جو جوانی کا ایک اہم دور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تعلیمی اداروں میں پڑھا ہے وہاں ایسی باتیں ایک معمول سی بن گئی ہے اور لوگ اس کو کامیڈی کے طور پر پیش کرتے اور اردگرد موجود لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے اور یہ باتیں تعلیمی اداروں میں نارمل سی ہوگئی۔ اسی طرح مدرسوں میں بھی یہی حرکتیں شروع ہوئی مسجد، قرآن مجید بلکہ کسی چیز کا لحاظ رکھا نہیں جاتا اور یہ چیزیں سرعام ہونے لگی اور اکثر شکایات موصول ہوتی ہے بلکہ ویڈیوز بھی موجود ہے۔
بس سٹینڈ، گاڑیوں کا اڈا اور ٹرک کے اڈے تو ان چیزوں کے مرکز بن گئے ہیں جہاں کچھ پیسوں کے عوض آپکے ساتھ غلط افعال کیے جاتے ہیں۔ اس میں اکثر وہی بچے ہوتے ہیں جو گھر سے بھاگے ہوتے ہیں یا گھر کے لیے دو تین پیسے کمانے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ ان کو یہ لوگ تنگ کرتے ہیں عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہے اور آخر میں اپنے جنسی تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں۔
سب سے زیادہ جنسی زیادتیاں اپنے ہی لوگ کرتے ہیں جو آپکے نزدیک رشتہ دار ہوتے ہیں یا کوئی آپکا دور کا رشتے دار آسان الفاظ میں جو اپکے گھر آسانی سے آسکتا ہو جس سے کوئی پردہ وغیرہ نہ ہو۔ سروے کے مطابق 95 فیصد زیادتیاں اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔
یہاں اکثر علاقوں میں یہ کلچر بھی عام ہے کہ یہاں ہر ایک بندہ اپنے ساتھ چھوٹا بچہ رکھتا ہے جس کو پشتوں میں کہتے ہیں "اس بچےکو ہم نے اپنے ساتھ رکھا ہے" اس بچہ کا کام کیا ہوتا ہے آپ سن کر دنگ رہ جائیں گے۔ اسکا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کی جنسی تسکین کرتا ہے اور اسکی جنسی خواہشات کو تسکین بخشتا ہے۔
تو homo sexuality یہاں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ غلط افعال کافی عرصے سے جاری ہیں اور اس کو روکنے والا نہیں بلکہ اس پر بولنے والا بھی کوئی نہیں۔ بلکہ ہم اسکو نارمل سمجھتے ہیں اور تعلیمی ادارے تو اس نہج پر پہنچے ہیں کہ وہاں گالیاں دینا کسی کی ماں بہن کو حوس بھری نظروں سے دیکھنا ان پر فضول گفتگو اور کمنٹ پاس کرنا، بچہ بازی والی باتیں کرنا ہمارا معمول سا بن گیا ہے اور ہمیں اس میں قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ جو ان چیزوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے تو کہا جاتا ہے تم تو گپ شپ کے لائق نہیں ہو، تم تو مولوی سے بن گئے ہو۔
ہمارے ہاں ہر ادارے ہر ڈیپارٹمنٹ اور ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں۔ حل اسکا کیا ہے؟ حل یہی ہے کہ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے good، bad touch کے بارے میں بتائیں انکے ذہن میں یہ بات بٹھا دیں کہ یہ چیز غلط ہے اور یہ ٹھیک ہے۔ انکے ساتھ دوستی رکھے تاکہ کوئی بھی بات ہو وہ پہلے آپکے ساتھ کرے وہ بات کسی بھی نہج کی ہو۔ دوستی اتنی ہو کہ بچہ آپکو بات کرتے ہوئے شرمائے نہیں وہ انگریزی میں کہتے ہیں hesitation اسکو محسوس نہ ہو غلط محافل، غلط دوستیاں اور رشتہ داریاں آپکو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ کیونکہ یہ چیزیں ایسے دوستوں اور ایسے محفلوں سے ذہن میں آتی ہے۔
Company matter کرتی ہے۔
تو براہ کرم اپنے بچوں کا خیال رکھیں 20 سال تک بغیر پوچھے کہیں مت چھوڑیں انکے دوستوں کا آپکو پتہ ہونا چاہیے اور خاندان میں بھی اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے بچوں کو بہادر بنائے ڈر بچوں کے اذہان میں مت ڈالے انکو صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رکھیں ان میں سب سے اول گیمز آتی ہے چاہے وہ فٹبال، کرکٹ، بیڈمینٹن، بکسنگ وغیرہ کوئی بھی ہوتاکہ ہم اچھی سوچ کے حامل بچے اس معاشرے کو دے تاکہ وہ اسکو سنوارے اور اسکے لیے کوشش کریں۔
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ دعا میں یاد رکھیے۔