Monday, 13 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umair Haidry
  4. Mutashadad Rawaiye

Mutashadad Rawaiye

متشدد رویے

رویہ ہماری سب سے پہلی سیڑھی ہے۔ ہمارے اندر کی چھپی بات کو ہمارا رویہ دوسرے کے سامنے اخذ کررہا ہوتا ہے۔ اب یہ دوسرے پہ depend کرتا ہے کہ ہمارے رویے میں چھپے message کو وہ سمجھ پاتا ہے یا ہماری اصلیت کھلنے تک کاربند رہتا ہے۔

وطن عزیز اس وقت ایسی صورتحال سے گزر رہاہے، جس میں ایک دوسرے کے خیالات تو کیامختلف الخیال افراد کا وجود بھی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ میرا نظریہ میری سوچ سب سے اچھی کے اصول بند افراد کیا جانیں کہ حسن اختلاف کا مزہ کیا ہے۔ ہمارے سماج میں سیاست میں مذہب میں معاملات زندگی کے دیگر تقریباََ پہلوں میں ہمارے رویے متشدد ہوچکے ہیں۔

متشدد رویے سے مراد جسمانی قسم کا تشدد ہی نہیں بلکہ ہر وہ تشدد ہے جو زبان اور ذہنی خلفشار مچانے کے لیئے معصوم انسانوں کے ذہنوں میں بھرا جاتا ہے اور ہر عام انسان اس کا شکار بنتا ہے۔ متشدد رویوں کے نقصان اور متشدد رویہ، ہوتا کیا ہے اسکی چند مثالیں سمجھانے کے طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔

مولانا فضل الرحمن صاحب دو یا ڈیڑھ سال پہلے PDM کے اہم اتحادی رہے ہیں اور بانی PTI کے بہت سخت حریف نظر آئے، قوم کو باور کرایا گیا کہ بانی PTI خود یہودی ایجنٹ ہے اور اسکے تقریباََ ڈوریاں سمتھ خاندان کے توسط سے یہودیوں کے قبضہ میں ہیں۔

مولانا شیرانی صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے اختلاف کو بیسک وجہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شیرانی صاحب نے کسی نجی محفل میں جب مولانا سے یہ سوال کیا کہ کیا واقعی بانی PTI یہودی ایجنٹ ہے۔ تو جوابا مولانا صاحب نے جواب دیا یہ میرا سیاسی بیانیہ ہے۔

لیکن اسکی تصدیق چونکہ اب مولانا صاحب نے خود میڈیا پر بھی کردی ہے تو شاید شیرانی صاحب سے بھی ڈسکس ہوئی ہو۔ مگر کیا ملا اس نسل کو جس کے ذہنوں میں یہ بات ثبت ہوچکی تھی کہ شاید واقعی کوئی دین اسلام کی جنگ ہے اور ہم ایک یہودی ایجنٹ کا قلعہ قمہ کرکے رہیں گے۔

یہودی ایجنٹ کی سپورٹ تو جیسے فلسطین پر یا دیگر اسلامی ممالک پر بمباری کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نسل سیاستدانوں کے پر تشدد رویے کی وجہ سے کفر اور اسلام کی جنگ میں شامل ہوچکی تھی۔ لیکن پھر یکدم اختلافی دیوار گر جانے پہ معاملہ سمجھ میں آیا کہ رویوں میں تشدد شامل تھا باقی کچھ نہیں۔

بانی PTI نے بھی ایاک نعبد وایاک نستعین کی بنیاد پر مذہبی ٹچ کے عوض ہماری نسلوں کو اسلام آباد کی سرزمین پر ریاستی محافظوں کے سامنے لاکھڑا کیا ایک عام ورکر کارکن یا سادہ لوح پاکستانی مسلسل مذہبی ٹچ کی بنیاد پر رویے نہ جانچ سکا اور کفر و اسلام کے فرق کی بنیاد پر مشتعل گروپس کا حصہ دیکھائی دیا جسکا جواب دس دس سال قید یا بھاری جرمانہ کے طور پر موصول ہوا۔

اب اس بانی صاحب نے مزاکرات بھی باقاعدگی سے کرنا شروع کردیئے ہیں اور اب ملک کو ڈیفالٹ سے نکالنے کا کریڈٹ بھی حزب مخالف کو دے دیا ہے اور حاصل کیا ہوا کچھ ماوں کو جوان بیٹوں کی لاشیں موصول ہوئیں۔ کچھ ڈیوٹی پر مامور لوگوں کو پتھر بھی لگے اور کچھ صحافیوں کو عجیب و غریب حرکات کا سامنا بھی کرناپڑا۔

ہمارے مذہبی پیشواوں کی بھی پر تشدد رویوں کی روش نسلوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوچکی ہیں۔ اس کی مثال قارئین کیلئے سمجھنا بالکل آسان ہوگی کہ سری لنکن شہری کو پورے شہر کے پرتشدد رویوں کے شاہکاروں نے صرف اس لیئے آگ لگادی تھی کہ شاید یہ کوئی گستاخ ہے مگر معاملہ سمجھنے پر کچھ جیلوں میں تھے اور کچھ فرار تھے۔

کوئی گستاخ ہے اور کیا سزاء ہے اسکو بغیر تصدیق کے تشدد کے متوالے اسلامی حق سمجھ کر بھسم کردیتے ہیں اور رزلٹ ملنے پر توبہ اسستغفار اور سزاء جزاء کا عمل شروع ہوچکا ہوتا ہے۔

اسکا واحد حل یہی ہے کہ ہر انسان کریٹیکل تھنکنگ اپنائے (کریٹیکل تھنکنگ سے مراد سوچ بوجھ کر کسی بھی بات پر عمل کرنا ہے) ایک باوقار قوم بننے کیلئے ہمیں ہر رویے اور ہر سوچ کے پیچھے چھپے ذاتی عناد کو پرکھنا ہوگا تاکہ ہم کسی کی ذاتی خواہش کی بھینٹ ثابت نہ ہوں۔

Check Also

Mashriq o Maghrib Ka Urooj

By Muhammad Irfan Nadeem