Civil Nafarmani
سول نافرمانی
لفظ انسان یا اشرف المخلوقات کا بہترین منصب تمغہ امتیاز یا طرہ سرداری 18 ہزار مخلوقات کو بالائے طاق رکھ کر بنی آدم کو نصیب ہوا۔ اللہ پاک نے تمام تر خصوصیات عطاء فرما کر بنی آدم کو اس دنیا میں ایک بہترین طرز زندگی بندگی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے مشروط زندگی جینے کا سہنری موقعہ دیا۔
اللہ عزو جل نے فساد شیطانیت کو انسان سے جدا کرکے فتنے فساد کو کھلا دشمن سمجھایا اور پھر بنی آدم کو اس دنیا مافیہا میں رہن سہن کے طرز عطاء فرمائے۔ آج روئے زمین پر کسی کو تکلیف نہ دینے والا اچھا تصور کیوں کیا جاتا ہے، کسی کی حق تلفی نہ کرنے والا بہترین کیوں کہا جاتا ہے، ظلم کے خلاف یا برسر پیکار رہنے والے کو پسند کیوں کیا جانے لگتا ہے، تو اسکے اندر سادہ سی بات چھپی ہے کہ شر فساد شیطانیت شرانگیزی انسانی فطرت سے بھی نکال لی گئیں تھی۔
آج کوئی کس کے ساتھ ظلم کرتا ہے، زیادتی کرتا ہے، حق تلفی کرتا ہے تو اسکے اپنے اندر چھپی انسانیت اسے کوس رہی ہوتی ہے کہ یہ فطرت انسانی کے برعکس عمل ہے۔ اللہ پاک نے ہمیں نسلیں، قومیں، سلطنتیں، ریاستیں عطاء فرما کر علیحدہ علیحدہ شناخت مرتب فرما دی ہے، مگر آج بھی پوری انسانیت ظلم شر فساد اور معاشرے میں فساد پھیلانے کو برا سمجھتی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی جوائنٹ فیملی میں موجود رہ کر صرف کھانا پینا کرتا رہے اور اپنی فیملی کو بیرونی یا اندرونی فوائد دلوانا تو اپنی جگہ دوسروں کو بھی تاکید کرے کہ میری فیملی کو نہ کوئی قرض دے، نہ کوئی روزگار دے اور نہ ہی واجبات ادا کرے۔ آخر اسکی فیملی کب تک اس کی بیوقوفانہ حرکت کو برداشت کرے گی، لیکن ریاست فیملی نہیں۔ ریاست کو تو ماں کہا جاتا ہے۔
ماں کی شان ہم مذہب پسند لوگ بخوبی جانتے ہیں اگر ماں کی نافرمانی مرتکب ہوجائے تو عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔ آخر جس ماں، جس ریاست کے ہم شہری ہیں کیا اس ریاست کے واجبات ہم پر لازم نہیں ہیں، ریاست کی بجلی استعمال کرکے بل ادا نہ کرنا؟ یا ریاست (ماں) کی کوکھ سے دور لوگوں کو سول نافرمانی کے نعرے میں لپٹی اپنی ذاتی خواہشات سے مزین سوچ کے ذریعے کچھ نہ بھیجیں، کچھ نہ دیں، اپنی ریاست اپنی ماں کو کوئی فائدہ نہ دیں، کتنی بری یا فساد پر مبنی سوچ ہے۔
یہ مشن کتنا کامیاب ہوگا میرے خیال میں ایک بہترین انسان اس چیز کو بالکل نامناسب سمجھتا ہے اور ہر اس چیز سے نفرت کرتا ہے جو اچھا شہری کہلوانے سے دور رکھتی ہو۔ 2014 کے ایک لمبے ترین دھرنے میں اس فارمولے کو آزمایا گیا تھا شرمندگی اس حد تک ہوئی تھی کہ خود بانیان بھی اپنے بل چوری چپکے ادا کررہے تھے۔ آج اگر اس قوم کا نوجوان آپ کے ہر نعرے پر لبیک کہ رہا ہے تو پلیز اسے فطرت انسانی کے تمام تر تقاضوں کے مطابق زندگی جینے دیں۔
بڑے لوگ اچھے لوگ ہمیشہ حقوق تلفی پر سرزنش کرتے نظر آتے ہیں مگر یہاں قابل افسوس ہے کہ مسیحاوں نے فیوچرکے پاکستان کو کھاو پیو موج اڑاو کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ کسی لحاظ سے ٹھیک نہ ہے۔ کل اگر ریاست کی باگ دوڑ انہی مسیحاوں کے ہاتھ ہوئی اور اس جھنڈے تلے جمع لوگوں نے اپنی تربیت یا سمجھائی گئیں نافرمانیاں دہرائیں پھر جیسا کروگے ویسا بھروگے کے مصداق لوگ کسی کومنہ دیکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔