Azadi Ya Madad
آزادی یا مدد
یہ دنیا بہت سمجھدار ہے۔ آپ کے قول فعل، کے تضاد کو بہت جلد پرکھ لیتی ہے۔ اب وہ سادگی کا دور نہیں رہا، جب صرف منہ سے نکلی بات کو من و عن تسلیم کیاجاتا تھا۔ یہ نیو جنریشن ہے۔ یہ نسل بہت ایڈوانس ہے۔ سیاست اور سیاست کے اندر سیاست کے بھید بھی نکال لیتی ہے۔
اب کوئی بھی بیانیے کے پیچھے پس منظر بھی عیاں نظر آتا ہے۔ اب لپٹی چوپڑی نہیں کھری کھری، کو پسند کیا جاتا ہے۔ رکھ رکھاو نہیں بلکہ بڑے چھوٹے کے آر ویار کی پراوہ کیئے بغیر اندر کا سچ منہ پر بول ہی دیا جاتا ہے۔ چھوٹی موٹی بدتمیزی کوایٹیٹیوٹ ماناجاتا ہے۔ اب نوے کی دہائی نہیں رہی۔
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ جہاں پر آپ کے پچھلے سارے بیان، چھوٹے سے یوٹرن پر ہی ساتھ ساتھ پلے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا رخ ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوا؟ جب تحریک انصاف کے بانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور کامیاب کروائی گئی۔ اسکے بعد متفقہ اور قوم ششدر کردینے والا بیانیہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے لانچ ہوا۔
ایبسلوٹلی ناٹ کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ، انڈیا، اسرائیل، جیسے ظالم ممالک سے نفرت کرتا ہے اور یہ تاثر ہر زبان زدعام ہے کہ ان تینوں ممالک کے خلاف بیانیے کو ضرور پزیرائی ملے گی اور ایسا ہی ہوا امریکہ سے منصوب ایک خط کو اسلام آباد کی فضاء میں پھیلا کر دیکھایا گیا کہ امریکہ نے پاکستان میں انٹر فیئر کیا ہے اور یہ سازش ہے۔ امریکہ کی یہ جرات وہ جرات تحقیقات اور لمبی لمبی انکوائریاں پرانا وطیرہ ثابت ہوئیں۔
تب تک قوم باور کرچکی تھی۔ امریکی سازش کو مسترد کرنے کی غرض سے قوم بانی تحریک انصاف کی صفوں میں شامل دیکھائی دی اور نوجوان نسل نے جدی پشتی دشمنوں سے بدلے کی خاطر بیلٹ پیپر اور روڈ احتجاجوں میں حد درجہ جرات و استقامت کا پھیکا مظاہرہ دیکھایا۔
سب اچھاچلتا رہا لوگ کاروان غیوریہ کی صف بندی کے بندھن میں بندھتے ہی گئے۔ کرب آزمائش اور مصیبتیں راحت سکون اور عیش و عشرت کا راستہ ضرور روکتی ہیں۔ ہر طرف گرفتاریاں مار دھاڑ اور چیخ و پکار کا سلسلہ شروع ہوا۔ تقریباََ مہربان اپنی جان بخشی کے چکروں میں پڑ گئے اور کچھ نے راہ فرار تو نہیں کہ سکتے لیکن براستہ ایئرپورٹ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
مختصر عرصہ بیت جانے پہ ہی سوری موری کا دور شروع ہوا اور پھر شاید پتہ نی کس کس اینگل کا آسرا لیا گیا اور معافی طلب میسج ارسال کروائے گے۔
پھر جنہوں نے رجیم چینج کروایا تھا کو آخری امید کے واسطے پر میدان میں نکالنے پر کامیابی ہوئی اور وہی لوگ جن کو ہم ایبسلوٹلی ناٹ کہتے تھے شاید اب وہ ایبسلوٹلی یس ہیں۔
محبوب کو محبت کا بہترین رسپانس موصول ہوا اور ٹویٹر کا میدان بانی کی حمائیت اور رہائی کی شرط پر سج گیا۔ وہ امریکہ جو چند سال پہلے بہت گھٹیا تھا اچانک بڑھیا لگنے گا، اب امید قوی یہ کہ نو منتخب صدر کے اپنے مخصوص نمائندے کی حمائیت سے بانی کی جان بخشی کروانے پر زور شور سے عمل پیرا لوگوں کو سابقہ بیانیئے کی دھجیاں اور ٹکڑے کرتے پایا ہے اور المدد المدد کو شد و مد سے بیان کیا جانے لگا ہے۔
اب جس انٹر فیئر پر 2 سال پوری ریاست کو قہرآلود کیا تھا اچانک اس بات کی فرمائش کی جانے لگی۔ کل جو سب غلط تھا اب اچانک اچھا اور خوشذائقہ محسوس ہوا اور آزادی کے متوالے اچانک غلامی کو پکارنے لگے۔
اب ایک نہیں ہزاروں سوال ہیں؟
پر اتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ جو خود کو سہولت میسر ہوجائے تو جائز و حلال ہے اور دوسرے کو ملے تو ہمارے اندر کا ارسطو جاگتا ہے اور سب کو جگاتا ہی رہتا ہے۔