Qismat Har Roz Likhi Jati Hai
قسمت ہر روز لکھی جاتی ہے
پاکستان کے خاص اوصاف بیان کرتے ہوئے ماہرین پاکستان میں 30 سال سے کم عمر کے کروڑوں نوجوانوں کی بات کرتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو صحیح ڈائریکشن مہیا کی جائے تو یہ ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں لیکن ان میں سے کتنے لوگ اپنی منزل کے بارے میں جانتے ہیں آج بھی وہی 30-40 سال پرانی ذہنیت کے ساتھ زندگی کے سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں۔ قسمت کی دیوی کے منتظر، کسی معجزے کے انتظار میں فرسٹریشن کے شکار۔
انہی کروڑوں نوجوانوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والا وقار علی بھی شامل تھا۔ سکول میں ایوریج سٹوڈنٹ، کالج لائف میں بھی ایوریج گریڈ، اپنی منزل سے نا آشنا یہ نوجوان بی بی اے میں داخلہ لے لیتا ہے کہ ایک دن قسمت کا پرندہ اس کے کندھے پر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ادارے آئی بی اے میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کرتا ہے اور پاکستان کے ٹاپ ٹرینرز کامران رضوی اور شیرین نقوی کی گفتگو سن کر پہلی بار اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ کامیابی کی بلندیوں کو پانے کے لیے اپنی ذات پر کام کرنا پڑتا ہے۔ پہلی بار سکول آف لیڈرشپ کا نام سنتا ہے پارٹ ٹائم اس ادارے میں کام کرنا شروع کرتا ہے اور آج صرف 33 سال کی عمر میں وقار علی اسی ادارے میں بحیثیت سی ای او کام کر رہے ہیں۔
وقار علی سے میری ملاقات ان کے ادارے میں ہی ہوئی انرجی سے بھرپور اور انکھوں میں بڑے خواب۔ میں نے پوچھا اس طرح کے ایونٹ میں تو سینکڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں کچھ گھنٹوں کے لیے چارج ہو جاتے ہیں کچھ بڑا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور کچھ ہی دنوں کے بعد اس ایونٹ میں سیکھی چیزوں کو بھول بھلا کر دوبارہ سے اپنی پرانی روٹین پر آ جاتے ہیں آپ کو ایسی کیا انسپائریشن ملی کہ ایونٹ کے بعد آپ ادارے میں آئے اور اس کا حصہ بن گئے۔
ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا میں گویا خود اپنی تلاش میں تھا اور انسان کو ٹرانسفارم ہونے کے لیے بعض اوقات ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے۔ جیسے دائی جانتی ہے کہ دردزہ نہ ہو تو ماں بچے کو جنم نہیں دے سکتی اسی طرح ایک نئی ذات یا شخصیت کے جنم کے لیے صعوبت اٹھانی پڑتی ہے۔
عشق ہی ناچے عشق نچائے
بات سنو تم میری
دل والوں پر روشن ہوگئی
ہر اک رات اندھیری
(سچل سرمست)
وقار نے کہا ثاقب بھائی "قسمت وہ ہے جو ہر روز رویے کو دیکھ کر لکھی جاتی ہے" اسی ایک فقرے میں میرے دوستو! کامیابی کا گر چھپا ہوا ہے۔ میں خود اپنی ذات پر اپلائی کروں تو میں جس دن صبح یوگا کرتا ہوں میرا وہ دن بھرپور طریقے سے گزرتا ہے لیکن یوگا پہ جانے کی ایک قیمت ہے صبح چھ بجے پارک میں پہنچنا ہوتا ہے آپ یہ قیمت ادا کریں اور اس دن کی قسمت اپنے نام کر لیں۔
محترم دوستو! قسمت کا پرندہ اللہ تبارک و تعالی ہماری طرف بھیجتے ہیں لیکن اس پرندے کو ایک نشانی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے اس نشانی والے شخص یا گھر کے اوپر جا کر بیٹھنا ہے۔ اب فرض کیا وہ پرندہ ایک گلی میں آتا ہے جس میں 20 گھر بنے ہوئے ہیں تو وہ کیسے پہچانے گا کہ ان 20 گھروں میں سے میں نے کس گھر میں جانا ہے؟ اس کو جو نشانی بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ دیکھو کہ جس گھر کے باہر محنت کا درخت سب سے اونچا اور گھنا لگا ہوا ہو بس اسی گھر کے اندر چلے جاؤ۔
کیا آپ کے گھر یا آپ کی ذات کے ساتھ ایسا کوئی درخت، پودا، بوٹا، معمولی گھاس پھوس لگی ہوئی ہے؟ جواب آپ جانتے ہیں محنت کا درخت لگائیں، اس کو ہر روز پانی دیں، اس کو بڑا کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈیں اور اس کے سائے کو وسعت دیں قسمت کا پرندہ آپ کا منتظر ہے وقار علی نے بتایا کہ میں نے 18-18 گھنٹے کام کیا، پاکستان کے سو سے زیادہ شہروں میں ٹریننگ کروائی دور دراز کے دیہاتوں، گھوٹوں، پہاڑوں اور ریگستانوں میں ٹریننگ کروائی اور یہ کام وہ کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔
میں نے پوچھا پاکستان میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں ان کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟ وقار کا جواب سٹریٹ فارورڈ تھا "روؤ یا ایکشن لو"۔
مزید وضاحت سے بتایا کہ ان میں سے ہر نوجوان کے پاس موبائل فون ہے زیادہ تر کے پاس موٹر سائیکل بھی ہے تو ان چیزوں کا مثبت استعمال کیوں نہیں کرتے؟ آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرکے فوڈ ڈیلیوری ٹیم کا حصہ بنیں، بائیک رائڈرز بنیں، زیادہ تر کورسز فری میں یوٹیوب پر دستیاب ہیں ان کورسز کو سیکھ کر اپنا سکل سیٹ بڑھائیں۔ بے روزگاری یا مہنگائی کا رونا رونے سے کام نہیں چلے گا۔ انسان یونیورسل ہے انٹرنیشنل مارکیٹ میں کام کرنا سیکھیں اور ڈالرز میں کمائی کریں۔ مہنگائی تو اور بڑھے گی خرچے کم کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اپنی انکم بڑھانی پڑے گی اور انکم محنت بڑھانے کے ساتھ ساتھ سکل سیٹ اور مائنڈ سیٹ کو امپروو کرنے کے ساتھ بڑھتی ہے۔
وقار علی نے "کن فیکون" کی بات کی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے اور ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس فلسفے کو سمجھنے کے بعد میں نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے حوالے کر دیا کہ محنت کرنا اور سکل سیٹ کو بڑھانا میرا کام ہے اور رزلٹ اللہ تعالیٰ خود ہی دے دے گا۔
فیملی لائف کے حوالے سے بڑی امپورٹینٹ بات کہی کہ دوسروں کی سپیڈ کو بھی سمجھا جائے۔ اگر آپ کو سفر کرنے کا، کامیاب لوگوں سے ملنے کا، کتابیں پڑھنے کا، ورکشاپ اٹینڈ کرنے کا اور اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کا موقع مل رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنے قریبی لوگوں کو پرانے خیالات کا مالک سمجھ کر نظر انداز کریں۔ جیسا کہ اوپر لکھا کہ ان کی اور ہماری سپیڈ میں فرق ہے گھر میں جا کر وقار سارے روٹین کے کام کرتے ہیں سبزی، دودھ لانا، اپنی بیٹی اور دیگر فیملی ممبرز کو کوالٹی ٹائم دینا۔ کہا ثاقب بھائی میں آفس کے کاموں کو ذہن سے نکال کر گھر میں داخل ہوتا ہوں کمبائنڈ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں فیملی کے ساتھ مضبوط بانڈنگ ان کی کامیابی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
اپنی ذات سے گفتگو کرنے کی اہمیت پر زور دیا کہ خود سے پوچھا جائے کہ میں کہاں پر جا رہا ہوں؟ کیا میں سگنل پر رکتا ہوں؟ میرے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے؟ کیا میں قطار بناتا ہوں؟ ایکسرسائز کرتا ہوں؟ پچھلے کچھ مہینوں میں میں نے کوئی نئی سکل سیکھی؟ اپنے آپ سے کہیں زیادہ حرکت میں برکت ہے اپنے شعور کو بہتر بنائیں اور لائبریری جانے کی عادت ڈالیں۔
پاکستان میں اچھے کاموں کو سراہنے کی ضرورت ہے آپ کا اٹھنا بیٹھنا کن لوگوں میں ہے آپ کی قسمت اسی کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ امام غزالی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی "بیٹا دنیا میں ایمان کے بعد اگر کوئی چیز ڈھونڈنا تو اچھا دوست ڈھونڈو کیونکہ اچھا دوست اس درخت کی مانند ہے جو سایہ بھی دے گا اور پھل بھی"۔
وقار نے ترکی اور ملائیشیا میں بھی ٹریننگز کروائیں۔ شخصیت میں بہتری اور نیکسٹ لیول پر جانے کے لیے دو فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیا۔
پہلی فلم "ائیر" کے نام سے ہے جو شوز بنانے والے مشہور کمپنی "نائیکی" کی کامیابی کی کہانی بیان کرتی ہے اور دوسری فلم پیپسی کمپنی کے اوپر ہے جس کا نام "ویئر از مائی جیٹ" ہے۔
وقار علی سکول آف لیڈرشپ سے وابستہ ہیں۔ اس ادارے سے تربیت حاصل کرنے والے بلائنڈ نوجوان کا تزکرہ کیا جو آج لاہور میں پہلے بلائنڈ جج کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ایسی سینکڑوں سٹوریز اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں اس ادارے کے کاموں کا احاطہ ہم انہی صفحات میں آپ سے بیان کریں گے۔ اس ادارے کے اسلام آباد آفس کی روح رواں مریم عرفان کی زندگی کی کہانی جلد ہی آپ سے شیئر کی جائے گی اور آخر میں وقار علی کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ شعر
سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے