Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Pas e Parda

Pas e Parda

پس پردہ

اسلام آباد کو افسران کا شہر کہا جاتا ہے۔ ایک روز ایک سینیئر افسر شام تک فائلوں میں گھسے رہے، ذہنی پریشانی زیادہ بڑھی تو وہ ایک نجی مہمان خانے میں جا گھسے اور وہاں کتاب حسن کی ورق گردانی کے دوران ریڈ میں پکڑ گئے۔ پولیس نے گھر اطلاع دی تو بیگم صاحبہ بھی پہنچ گئیں۔ جنہیں دیکھ کر بہت شرمندہ نظر آئے۔ بیگم سے کہنے لگے بہت embarrassment ہوئی ہے۔

بیگم نے جھاڑجھپٹ کی اور ڈانٹتے ہوئے پوچھا "اتنی گھٹیا حرکت تم نے کیوں کی؟" تو کہنے لگے شرمندگی وقوعہ کی نہیں ہے جائے وقوعہ کی ہے۔ اگر فائیو سٹار ہوٹل سے پکڑا جاتا تو باخدا کوئی شرمندگی نہ ہوتی۔ پریشانی یہ ہے کہ واقف کار اور پولیس والے کیا کہیں گے کہ اتنا سینیئر افسر ہو کر میں ایسے بی کلاس گیسٹ ہاؤس کا کسٹمر ہوں۔

اسی گریڈ زدہ شہر میں پچھلے سال ایک گریڈ بیس کے افسر کی بیٹی نے ویلنٹائن ڈے اس طرح منایا کہ وہ اسی روز اپنے سب سے گہرے دوست کے ساتھ نکل گئی۔ رات تک جب وہ گھر نہ لوٹی تو پولیس کو اطلاع دی گئی۔ دو روز بعد دونوں پکڑے گئے۔ افسر موصوف نے صاحبزادی کے دوست کے کوائف، اثاثے اور منی ٹریل جاننے کے بعد اپنی بیگم سے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "تمہاری بیٹی نے پورے شہر میں میری ناک کٹوا دی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ بیس گریڈ کے افسر کی بیٹی اٹھارہ گریڈ والے کے لڑکے کے ساتھ چلی گئی ہے اور وہ بھی آٹھ سو سی سی والی آلٹو پر"۔ بیگم اس سے بلند آواز میں بولی "میری بیٹی تو موٹر میں گئی ہے کمبخت! تم تو مجھے موٹر سائیکل پر لے اڑے تھے وہ بھی ستر سی سی والے پر"۔

"سابق پولیس افسر ذوالفقار احمد چیمہ کی کتاب "پس پردہ" سے انتخاب"۔

*****

"احمد ندیم قاسمی سے پوچھا کہ اچھا اور میعاری لکھنے کے لیے وہ نئے لکھنے والوں کو کیا مشورہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل مطالعہ بہت اہم ہے۔ ہر ادیب کو یہ عادت بنا لینی چاہیے کہ وہ کچھ وقت مطالعہ کو ضرور دیں۔ اس سے نہ صرف تازہ ترین ادبی تخلیقات اور رجحانات سے آگاہی رہتی ہے بلکہ سوچ اور تخلیق کا نیا مواد بھی سامنے آتا رہتا ہے۔

دوسرے انہوں نے زور دیا کہ روزانہ لکھنا بہت اہم ہے۔ مشق جاری رہنی چاہیے۔ اس سے تحریر میں روانی، پختگی اور نکھار آتا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنی مثال دی کہ جب لمبے وقفے کے بعد قلم اٹھایا تو تحریر میں رکاوٹ اور زبان میں لکنت آگئی اور پہلی سی روانی محسوس نہ ہوئی۔

تیسرا اہم نقطہ جس پر انہوں نے زور دیا وہ مشاہدہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ایک لمحے کا مشاہدہ طویل ریاضت پر بھاری ہوتا ہے۔ جب کبھی میں قاسمی صاحب کے ہمراہ کہیں جاتا تو وہ اپنے گرد و پیش کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ گلبرگ کا ریستوران ہو، مال روڈ پر واقع ہوٹل ہو، جم خانہ ہو یا کوئی دفتر۔ وہ نہ صرف مشاہدہ کرتے بلکہ معاملات کا معروضی تجزیہ کرتے۔

سوالات ہر وقت ان کے ذہن میں جنم لیتے رہے جن کا جواب مل جاتا، افسانے میں ڈھل جاتے۔ وہ آخری عمر تک متجسس رہے۔ عالمی نظریات ہوں، ملکی حالات یا جدید ادب، ان کی دلچسپی برقرار رہتی۔ ایسے میں بہت سے معاملات تشنہ بھی رہتے۔

***

شہرۂ آفاق نفسیات دان سگمنڈ فرائڈ نے ایک جگہ لکھا ہے ایک پیچیدہ گتھی جسے میں اپنی تیس سالہ عرق ریزی اور تحقیق کے باوجود ہنوز سلجھا نہیں سکا، یہ ہے "عورت آخر چاہتی کیا ہے؟"

***

مشہور مصور تصدق سہیل کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ایک ملاقات میں شکیل عادل زادہ صاحب نے ان کی اس طویل عمری میں تازگی برقرار رہنے کے حوالے سے پوچھا تو بتایا۔

میں جوان لوگوں میں رہتا ہوں اس لیے جوان ہوں۔ انسان کی طبی عمر سو برس ہے۔ اگر کوئی اس سے پہلے طبعی موت مر جائے تو میں اسے "بے وقوف" سمجھتا ہوں۔ ہاں حادثات اور بیماریاں انسان کے اختیار میں نہیں۔ میرا ایک عزیز ہسپتال میں داخل ہوا۔ ڈاکٹروں نے اس کا آپریشن کیا اور اس کے چلنے پھرنے پر سختی سے پابندی لگا دی۔ وہ ظالم تازہ ٹانکوں کے ساتھ آنکھ بچا کر رکشے میں بیٹھا اور گھر کی جانب چل پڑا۔ رستے میں سڑک ٹوٹی پھوٹی اور زیر تعمیر تھی۔ چنانچہ جھٹکے لگنے سے اس کے زخم کھل گئے اور وہ باہر گر گیا۔ وہیں اس کی موت واقع ہوگئی۔ میں اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا جب شکوہ کیا گیا تو میں نے صاف کہہ دیا میں کسی بے وقوف کے جنازے میں شریک نہیں ہوا کرتا۔ میں 87 برس کا ہوں لوگ سمجھتے ہیں میں جلد مر جاؤں گا اسی لیے دھڑا دھڑ میری تصویریں خریدتے ہیں تاکہ بعد میں اسے مہنگے داموں فروخت کر دیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

میں نے آج تک کوئی ایسی حسین عورت نہیں دیکھی جو اپنی تعریف سے خوش نہ ہو۔ توصیف میں پرکاری ضروری ہے۔ عموماً خوبصورت خواتین خوش مزاج، باتونی اور رحم دل ہوتی ہیں۔ واجبی اور کم رو خواتین کو احساس کمتری نے کچھ ایسا کڑوا بنا دیا ہوتا ہے کہ ان کی تعریف گویا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔

کسی بھی کام کو شروع کرنے کا بہترین دن "آج" کا دن ہے اور بہترین وقت "ابھی" ہوتا ہے۔ کسی مناسب وقت اور موقع کی کوشش اور انتظار صلاحیتوں کو زنگ کی طرح کھا جاتا ہے۔ اس لیے بھلے چھوٹے اور تھوڑے کام سے شروع کرو مگر آج اور ابھی کرو۔ اس سے مشق بھی ہوتی ہے اور تخلیق میں نکھار بھی آجاتا ہے۔

میں نے زندگی کی ابتداء میں چند فیصلے کر لیے تھے جن پر آج بھی قائم ہوں۔ ایک تو یہ فیصلہ کہ کبھی باقائدہ فل ٹائم نوکری نہیں کرنی بھلے اس کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے پڑیں۔ اس خود عہدی کو پورا کرنے کے لیے سیلز مین سے لے کر شیف تک رہا مگر اپنی زندگی کو زیادہ وقت دیا دوسروں کی زندگی کو نہیں۔ دوسرے کسی کام کو حقیر نہیں جاننا چنانچہ ہر پیشے کی دل سے عزت کرتا ہوں۔

****

مشہور مصنف اور اداکارہ بشریٰ انصاری کے والد احمد بشیر اکثر مولانا روم کا ایک شعر پڑھا کرتے تھے۔۔

حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم، پختہ شدم، سو ختم

میرا حاصل عمر فقط تین لفظ

خام تھا، پختہ ہوا، تمام ہوا

اس کے علاوہ گنگنایا کرتے۔۔

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا
اور بدریا چھائی ہے

"عرفان جاوید کی کتاب "دروازے" سے انتخاب"۔۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry