Naujawan Khatoon Managing Director Mariyam Irfan
نوجوان خاتون مینیجنگ ڈائریکٹر مریم عرفان
یہ خپلو کے ایک مقامی کالج کا منظر ہے سکول آف لیڈرشپ فاؤنڈیشن کی ٹیم کی طرف سے کمیونٹی سیشن آرگنائز کیا جاتا ہے۔ کالج کے سٹوڈنٹس کو پیغام دیا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی قابل عمل آئیڈیا ہے جس سے ملک میں بہتری آ سکتی ہے تو آپ اس آئیڈیے کو جنریشن ان لمٹیڈ یوتھ چیلنج کے پلیٹ فارم پر پیش کر سکتے ہیں۔
17-18 سال کی عمر کے تین لڑکے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ گلیشیئر کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے صدیوں سے ایک طریقہ استعمال کر رہے ہیں ہم وہ طریقہ اس پلیٹ فارم پر پیش کرنا چاہیں گے لیکن ہمیں تو ای میل کرنی بھی نہیں آتی۔ سکول آف لیڈرشپ فاؤنڈیشن کی ٹیم ان لڑکوں کو اسلام آباد لے کر آتی ہے۔ ان کا آئیڈیا پسند کیا جاتا ہے انہیں ڈیڑھ لاکھ روپے کی گرانٹ ملتی ہے۔ وہ اس رقم سے سسٹم جنریٹ کرتے ہیں گلیشیئر کے پانی کو ری چینالائز کیا جاتا ہے اور ایک پوائنٹ پر اس پانی سے آرٹیفیشل گلیشیئر بنتا ہے جو آئس ٹوپا کی طرح کام کرتا ہے اور پانی ضائع نہیں ہوتا۔
پاکستانی یوتھ کی کامیابی کی یہ متاثر کن داستان مریم عرفان بیان کر رہی تھیں۔
نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
(علامہ اقبال)
آپ پاکستان کی نوجوان خاتون مینجنگ ڈائریکٹرز میں سے ایک ہیں۔ راولپنڈی شہر سے تعلق ہے۔ مضبوط اعصاب، آنکھوں میں انرجی، ہائی ویژن اور اللہ تعالیٰ پر یقین۔
مریم 2014 سے SOLF (School of Leadership Foundation) کے ساتھ وابستہ ہیں اور 2019 میں صرف 29 سال کی عمر میں اس ادارے کی مینجنگ ڈائریکٹر بن گئیں اور پچھلے پانچ سال سے اسی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ دوران گفتگو بتایا کہ ثاقب صاحب پاکستانی یوتھ میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تین لڑکوں کی کہانی بتائی وہ لڑکے بھی جنریشن ان لمٹیڈ یوتھ چیلنج میں آتے ہیں اور Biodegradable پلاسٹک بنانے کا آئیڈیا پیش کرتے ہیں۔ نہ صرف SOLF کے پلیٹ فارم سے ڈیڑھ لاکھ کی گرانٹ لیتے ہیں بلکہ ان کا یہ آئیڈیا گلوبل نومینیشن کے لیے شارٹ لسٹ ہوتا ہے پسند کیا جاتا ہے اور وہاں سے ان لڑکوں کو 35 لاکھ روپے کا پرائز ملتا ہے جس سے وہ اپنی کمپنی تیار کرتے ہیں۔
کون کہتا ہے پاکستان میں ٹیلنٹ نہیں ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مریم عرفان کی کامیابی کچھ اصولوں کو فالو کرنے کا نام ہے۔ والدین کا کہنا تھا آپ ہائی کوالٹی کی تعلیم حاصل کرو خوش قسمتی خود بخود آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ کیرئیر منتخب کرنے کی آزادی دی گئی۔ والدین کی طرف سے ایسا کوئی دباؤ نہیں تھا کہ آپ ڈاکٹر بنو یا کسی اور خاص شعبے میں جاؤ۔ مریم نے یونیورسٹی آف لندن سے بیچلرز کیا اور پھر ایچ آر میں ماسٹرز کیا۔ سکول لائف میں ہیڈ گرل رہیں۔ سنگنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا، مختلف فارمز پر سکول کی نمائندگی کی، بہت سی کانفرنسز کا انعقاد طالب علمی کے دوران ہی کیا۔ یعنی اس دور کو ہم شخصیت کی مضبوطی اور خود اعتمادی کا پروان چڑھنا کے طور پر لے سکتے ہیں۔
وہی اپنا فیورٹ سوال کیا کہ کامیاب ہونے کے لیے کیا کیا جائے؟ کون سا چورن استعمال کیا جائے؟ سب سے پہلے انہوں نے ہارڈ ورک کی بات کی جان توڑ محنت کی جائے۔ ٹیم بنانے کی اہلیت آپ کے اندر ہونی چاہیے کہ ایک کا لفظ بہت چھوٹا ہے کوئی بڑا کام کرنے کے لیے۔
ایک بڑی گہری بات کی کہ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو تیار رکھا بڑے پلیٹ فارمز پر کام کرنے کے لیے۔ یعنی جب قسمت کی گھنٹی دروازے کے باہر بجتی تھی تو میں اس کے انتظار میں دروازے کے بالکل ساتھ تیار کھڑی رہتی تھی۔ آپ نے اسی لیے ٹاپ لیول پر کام کیا نیپال، روس، فلپائن اور دیگر انٹرنیشنل فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ اللہ تعالیٰ پر یقین کی بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ غیب سے مدد کی اور کہا ثاقب صاحب میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی رہتی ہوں۔
میاں محمد بخش کے الفاظ میں ہم اس کو یوں بیان کرتے ہیں۔
نیں بھی ڈونگھی، تلہ پرانا، ڈردی پیر نہ پائیں
مینڈے سجنا مینڈی کوک پئی تئیں تھائیں
توں دریاؤ میں من تارو، کر کرپا پار لنگھائیں
او گنہگاری گن نہ کوئی، توں گن ونتا نہیں سائیں
جنگل جنگل پھراں ڈھونڈیندی، ہر درسن کیہ تھائیں
اوجھڑ جھنگ بلائیں بیلے، میں بھلی راہ پائیں
کہے حسین فقیر نمانا، لگڑی اور نبھائیں
ندی گہری ہے اور کاگھڑ پرانا، (دریا میں) اترتے ہوئے ڈرتی ہوں۔
میرے دوست! میں تجھے پکار رہی ہوں۔
تو دریا ہے اور میں، جسے تیرنا نہیں آتا، عنایت کر! مجھے کنارے لگا دے۔
مجھ عیبوں بھری میں کوئی وصف نہیں، تو وصفوں بھرا مالک ہے۔
جنگل جنگل، جہاں جہاں تیرے ملنے کا امکان ہے، میں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔
دشوار گزار جنگلوں، ہیبت ناک بیلوں میں بھٹک رہی ہوں، مجھے راستہ دکھا۔
حسین اپنے سائیں کا فقیر کہتا ہے، میرے لگن آخری تک قائم رکھنا
مریم عرفان کے کریڈٹ پہ بہت سارے کام ہیں اس میں سے ایک کام انٹرنیشنل لیول پہ ٹریننگ کے بزنس کو لے کر جانا شامل ہے۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے سٹاف کی ہائر ایجوکیشن کمیشن ملائشیا کی ٹیم کے ساتھ مشترکہ ٹریننگ شامل ہے۔
بہت سارے چیلنجز کا سامنا کیا 2019 میں ادارے کی سربراہی سنبھالنے کے بعد کووڈ (COVID) کا سامنا کیا۔
پوری دنیا میں ٹریننگ انڈسٹری زوال کا شکار ہو رہی تھی ان کی ٹیم میں پانچ لوگ تھے۔ زیرو کاسٹ ماڈل پہ گھر سے کام کرنا شروع کیا خوش قسمتی سے اقوام متحدہ کی طرف سے نوجوانوں میں کووڈ رسپانس کی آگاہی کے حوالے سے ایک بڑا کام مل گیا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ڈیجیٹل ٹریننگ میں آئے پورے پاکستان میں کمیونٹی سیشنز کروائے۔ برفانی علاقوں اور صحراؤں میں ہماری ٹیم نے کام کیا۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس اتنا کام تھا کہ ہم صبح چار بجے سے کام کرنا شروع کر دیتے تھے۔
بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا
کام کرنے سے بات بنتی ہے
برٹش کونسل کی طرف سے ٹریننگ کروانے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان پہنچیں۔ وہاں پر پروفیسرز ان سے دگنی عمر کے تھے۔ ایک سینیئر پروفیسر نے ان سے پوچھا کہ ہماری ٹریننگ کون کروائے گا انہوں نے جواب دیا میں ٹرینر میں ہوں تو حیران ہوئے لیکن ٹریننگ سٹارٹ ہونے کے بعد مریم عرفان کی مہارت دیکھ کر پروفیسرز نے آسودگی بھرا سانس لیا۔
خواتین کو Empower کرنا SOLF کے بنیادی وژن میں شامل ہے۔
مریم نے بتایا کہ ہمارے سٹاف میں 70 پرسنٹ خواتین ہیں اور ہم ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے کام میں آزادی دینے کی فلاسفی پہ یقین رکھتے ہیں۔ مریم خود ایک پانچ سال کے بیٹے کی ماں ہیں۔ کہا کہ میں بچے کو صبح سکول چھوڑ کے آٹھ بجے افس آ جاتی ہوں اور دوپہر تین بجے کام ختم کرکے بچے کو سکول سے پک کرکے گھر آ جاتی ہوں۔ ٹیم میں موجود دیگر خواتین جن کے چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی یہی سہولت دی جاتی ہے۔ اپنے سینیئرز کامران رضوی اور شیرین نقوی کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے سکھایا کہ ہمیشہ کمٹمنٹ سے زیادہ کام کرکے دکھاؤ۔
Always under commit and over delivered
انہوں نے بتایا کہ پچھلے کچھ مہینوں میں UNDP کے اشتراک سے 430 فیملیز کی ٹریننگ کروائی کہ اپنے گھر سے بزنس کیسے کرنا ہے بہت بڑے سکیل پر یہ کام کیا گیا۔ 11 شہروں میں بوٹ کیمپ لگائے گئے اور ہر کیمپ چار دن کے ریزیڈنشل پروگرام پر مشتمل تھا۔ خواتین کو ڈیجیٹل میڈیا، مارکیٹنگ اور موبائل بینکنگ کی تربیت دی گئی۔
مریم ٹیکنیکل رائٹنگ میں بھی مہارت رکھتی ہیں اپنی کامیابیوں میں اپنے شریک حیات کے تعاون کا خصوصی تذکرہ کیا۔ ان کے شوہر گرافک ڈیزائن ایجنسی کے مالک ہیں۔ ان کا اعتماد اور سپورٹ مریم کے وژن کو نئی بلندیوں کی طرف لے کر جا رہا ہے۔
یونیسف کے ساتھ مل کر مینٹل ہیلتھ اور سائیکو سپیشل سپورٹ کے حوالے سے شمس (SHAMS) کے ٹائٹل سے ایک زبردست کام SOLF کے پلیٹ فارم سے کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے انشاء اللہ ایک الگ کالم میں اس کی تفصیل بیان کریں گے۔
اور آخر میں مریم عرفان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ شعر
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے