Khwab, Raaz, Roshni Aur Rasta (2)
خواب، راز، روشنی اور راستہ (2)
جیسے آپ کی ماں آپ کے لیے سب سے زیادہ خوبصورت ہے ویسے ہی آپ کا ملک آپ کے لیے سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اگر آپ کی زندگی کا مقصد ملک سے باہر جا کر کامیاب ہونا ہے تو جدوجہد کرکے انگریزوں سے آزادی لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اپنے ملک سے محبت کو اجاگر کرتی ہوئی یہ خوبصورت باتیں ڈاکٹر طہٰ صابری کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے زمانے میں مشہور تھا کہ ایک بچے کی تربیت پورا گاؤں کرتا ہے یعنی بچے کو ذہنی گروتھ کے لیے ماں باپ، بہن بھائیوں کے علاوہ چاچے، مامے، خالائیں، کزنز، پڑوسی اور ایک خوشگوار ماحول چاہیے ہوتا ہے۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا کہ ہم ترقی پذیر ملکوں کی صف میں گنے جاتے ہیں جو کہ درحقیقت ایک نعمت ہے۔ میٹیریل چیزوں کی فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام قائم ہے۔ سادگی کی اہمیت پر شہزاد عاطر یاد آ گئے۔۔
اِک دریا، اِک جھیل، اِک مہتاب لے کر آ گئے
ساتھ اپنا حلقۂ احباب لے کر آ گئے
پچھلے کالم کا رسپانس غیر معمولی تھا۔ پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک نئی خبر تھی کہ خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ امریکہ میں اینٹی ڈپریشن کی دوائیوں کی کثرت کے حوالے سے لوگوں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر طہٰ نے دورانِ گفتگو بتایا ثاقب صاحب آپ کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہوگی کہ امریکہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں میٹرنٹی لیوز تنخواہ کے ساتھ نہیں دی جاتیں۔ خواتین کو دوران حمل کام کرنا پڑتا ہے اور جیسے ہم نے ڈسکس کیا پیٹ کے اندر موجود بچہ ماں کی فیلنگز کے لحاظ سے گروتھ پا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے مسئلہ وہیں سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خاندان کا تصور نہیں ہے۔ ایک سروے نے بتایا 12 سال کی عمر تک ایک امریکن بچہ سیکس کے تجربے سے گزر جاتا ہے۔ اٹھارہ سال کے بعد اس نے خود کمانا ہے۔ اندر سے وہ کھوکھلا ہو جاتا/جاتی ہے اور نتیجہ ذہنی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
محترم دوستو! اور میں اپنا تجربہ آپ سے شیئر کروں تو خود میرے بھی پچاس فیصد سے زیادہ انٹرنیشنل کلائنٹس امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
خاندانی نظام کی مضبوطی ایک بچے کے اندر کا خلا پر کرتی ہے اور ہائی سیلف اسٹیم کی بنیاد ڈالتی ہے۔ آپ کے اندر کی آواز آپ کی زندگی پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے اس کو ہم ترکی کی اس قدیم حکایت سے سمجھتے ہیں۔
سیکڑوں سال پہلے ترکی کے ایک قدیم گاؤں میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا اپنی شفافیت مٹھاس اور صحت بخش اثرات کی وجہ سے اس کنویں کے پانی کا چرچہ دور دور تک کیا جاتا تھا اور لوگ دور دراز کے گاؤں سے سفر کرکے اس کنویں کا پانی پینے کے لیے آتے تھے اس کنویں کے مالک کی بہت زیادہ عزت کی جاتی تھی پانی نکالنے کے لیے ایک بیل رکھا ہوا تھا صبح سویرے اس بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے باڑے سے نکالا جاتا تھا اور کنویں سے منسلک رہٹ کے ساتھ جوت دیا جاتا سارا دن وہ بیل کنویں کے ساتھ گھومتا رہتا اور شام ہونے پر اسے دوبارہ باڑے میں بند کر دیا جاتا۔
بیل بند آنکھوں کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر روز کہیں بہت دور جاتا ہوں اور کوئی امپورٹنٹ کام کرتا ہوں ایک دن صبح اس کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی تھوڑی سی کھل جاتی ہے اور وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی باڑے کے قریب ہی ایک جگہ پر دائرے میں چکر لگا رہا ہے۔ اب بے زبان جانور کچھ کر تو نہیں سکتا اس لیے سر جھکا کر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
لیکن اگلے دن سے میرے دوستو اس کنویں کے پانی کی وہ خصوصی تاثیر اس کی مٹھاس اور اس کا صحت بخش ہونا سب کچھ ختم ہو جاتا ہے وہی کنواں وہی بیل وہی مالک پانی نکالنے کے وہی اوقات لیکن گویا برکت روٹھ جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک بیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ کوئی بڑا کام کر رہا ہے تو اس کی سیلف اسٹیم ہائی رہتی تھی اور اسی وجہ سے پانی میں مٹھاس تھی گویا نیت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ہی پانی کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
مینٹل ہیلتھ کی آگاہی کے لیے تسکین چار شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ فلمز اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ذہنی صحت کا یہ پیغام تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگوں تک پہنچایا گیا ہے۔
ڈاکٹر طہٰ نے دوسرے شعبے کے بارے میں بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ تسکین کے پلیٹ فارم پر پندرہ سائیکالوجسٹ فل ٹائم موجود ہوتی ہیں جو لوگوں کو فری مینٹل ویل نیس کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ آپ لوگ صبح 11 سے رات 11 بجے تک اس ٹیم سے ان نمبرز 03168275336 پر رابطہ کرکے اس فری سروس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تیسرا شعبہ کمیونٹی میں مینٹل ہیلتھ کے پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں سکولوں میں ٹیچرز اور بچوں کے ساتھ سیشن کیے جاتے ہیں۔ تسکین کی ٹرینرز ٹیم نے پاکستان کے چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے سینکڑوں سکولوں میں ہزاروں لوگوں کو ٹرینڈ کیا۔
چوتھے شعبے کی بات کریں تو اس میں قومی سطح پر مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے پالیسی کی تبدیلی شامل ہے۔ کالم کے پہلے حصے میں ہم نے خودکشی کے حوالے سے قانون میں ترمیم کو ڈسکس کیا تھا۔ اسی طریقے سے تعلیمی نصاب میں اس حوالے سے مواد کو شامل کرنا ٹیچرز کی مینٹل ہیلتھ کی لازمی ٹریننگ لینا، غرض وہ تمام کام جس سے بچے کی ابتدائی عمر میں ہی پختہ ذہنی نشوونما ہو سکے۔ ڈاکٹر طہٰ صابری کے وژن میں شامل ہے۔
ڈاکٹر طہٰ صابری نے شیخ عبد القادر جیلانی کی مشہور کتاب"سر الاسرار" پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس کتاب میں نفس کے تصور کو بڑے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے نفس کی تین اقسام بیان کی ہیں:
نفس امارہ:
یہ وہ نفس ہے جو برائی کا حکم دیتا ہے اور انسان کو گناہوں اور نفسانی خواہشات کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ نفس انسان کو اللہ کی نافرمانی اور دنیاوی لذتوں کی طرف کھینچتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم میں سے نوے فیصد لوگ اسی کیٹیگری کے اندر آتے ہیں۔
"یقیناً نفس تو برائی کی طرف بہت اکساتا ہے، مگر جس پر میرا پروردگار رحم کرے"۔ (سورة يوسف 12:53)
نفس لوامہ:
یہ وہ نفس ہے جو اپنی غلطیوں اور گناہوں پر ملامت کرتا ہے۔ یہ انسان کو پشیمانی اور توبہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ نفس انسان کو اس کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اسے اصلاح کی طرف راغب کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ درمیانی عمر کے لوگ نفس لوامہ کی کیٹیگری میں آ جاتے ہیں۔ چالیس سال کی عمر سے زائد لوگ جب زندگی میں خالی پن محسوس کرتے ہیں کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔
"اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی"۔ (سورة القيامة 75:2)
نفس مطمئنہ:
یہ وہ نفس ہے جو اللہ کے ساتھ سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے۔ یہ نفس اللہ کی رضا اور تسلیم میں ہوتا ہے۔ یہ نفس دنیاوی خواہشات اور لذتوں سے بالاتر ہو کر اللہ کی محبت اور رضا کی تلاش میں ہوتا ہے۔
نفس مطمئنہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں ہائی ویژن کے لوگ آتے ہیں۔
"اے اطمینان والی روح! اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس حال میں کہ تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔ پس تو میرے بندوں میں"شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا"۔ (سورة الفجر 89:27-30)
ڈاکٹر طہٰ صابری عادتوں کو ریپلیس کرنے پر زور دیتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑی نہ جائے بلکہ اس کی جگہ کوئی اور چیز شروع کی جائی۔ مینٹل ویل نیس کے اسلامی طریقے کو پروموٹ کرنے کے قائل ہیں۔ ایک زبردست ٹیم بنانا چاہتے ہیں جو ایک شخص پر انحصار نہ کرے بلکہ اس شخص کے بغیر بھی ادارہ زبردست طریقے سے چلتا رہے۔ ڈاکٹر طہٰ صابری کا خوابوں کو پورا کرنے کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔
جو تھا نہیں ہے
جو ہے نہ ہوگا
یہی ہے اِک حرفِ محرمانہ
(علامہ اقبال)