Sheikh Abdullah Banamah
شیخ عبداللہ بانعمہ
شیخ عبداللہ بانعمہ (1976 - 2023) ایک سعودی واعظ ہو گزرا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری 31 سال ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ھڈی کے ساتھ بستر پر مفلوج، اس حال میں گزارے کہ صرف سر کو حرکت دے سکتے تھے۔ جبکہ جسم کے کسی دوسرے عضو پر کوئی بھی اختیار نہیں تھا۔ 1993 میں اپنے سیکنڈری سکول کے پہلے سال کے امتحان سے صرف 4 دن پہلے سوئمنگ پول میں ایسی چھلانگ لگائی کہ سیدھا گردن کے بل زمین پر جا لگے۔
طبی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا کہ پانی کے اندر سے 15 منٹ کے بعد نکالا گیا تو مرے تو نہیں تھے۔ مگر اگلے 4 سال ہسپتال کے بستر پر دنیا و مافیھا سے بے خبر بیہوش پڑے رہے۔ اس دوران ان کے 16 چھوٹے بڑے آپریشن ہوئے، جس میں ایک آپریشن کی مدت 11 گھنٹے بھی تھی۔ کروڑوں ریال خرچ ہوئے، جن کا بس اتنا سا فائدہ ہوا کہ زندہ تو رہے، مگر مکمل طور پر مفلوج اور اپنی ہر ادنی و اعلی حوائج کیلیئے دوسرے کے محتاج بن کر۔
بستر پر ہی علوم شرعیہ پڑھی۔ واعظ بنے، اپنی بذلہ سنج طبیعت اور چلبلی باتوں سے عوام میں ہر دلعزیز ہوئے۔ ان کی وفات (27 جنوری 2023) پر ٹویٹر پر ان، کی فوتیدگی کی اطلاع عرب دنیا کا سب سے بڑا ٹرینڈ بنی رہی اور پورا سعودی عرب سوگوار ہوا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ یہی گمان کرتا تھا کہ مجھ سے زیادہ بدنصیب اور مصیبتوں میں گرفتار شخص شاید ہی کوئی اس دنیا میں ہوتا ہوگا۔
کیونکہ میں مفلوج اور مشلول بستر پڑی ہوئی زندہ لاش جو بس اپنے سر کو تھوڑا بہت ہلا سکتا ہو اور کچھ بھی نہ کر سکتا ہو کہ، ایک بار ایک مشہور عالم دین اور شیخ صاحب مجھے ملنے کیلیئے تشریف لائے اور میری مایوس باتوں کو سن کر کہنے لگے کہ چل میرے ساتھ اور تجھے تجھ سے زیادہ بدحال لوگ ملواؤں۔ اور واقعی ان کے ساتھ مجھے ایک ایسے شخص کو ملوانے کیلیئے لیجایا گیا تھا تو میرے جیسا ہی مفلوج اور مشلول لیکن ساتھ ہی سننے بولنے سے محروم گونگا اور بہرا بھی۔
مجھے اس شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ ایک بار جب اس کے گھر والے اس کے کمرے میں داخل ہوئے تو اس کے کپڑوں پر کچھ خون دیکھا۔ دیکھنے پر پتہ چلا کہ اس کی دو انگلیاں کٹی پڑی تھیں۔ ساری رات ایک چوہا اس کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ کر اس کی انگلیوں کو کترتا رہا اور وہ شخص ساری رات روتا ہوا اپنی انگلیوں کو کھاتا ہوا دیکھتا رہا۔