Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saleem
  4. Do Tok Baat

Do Tok Baat

دو ٹوک بات

ہمارے ایک ہم جماعت کا چھوٹا سا گول مٹول، شرارتی اور بہت ہی پیارا بھائی، اپنے پرائمری سیکشن میں چھٹی ہونے پر اور ہمارے سیکشن کی چھٹی ہونے سے پہلے ہماری کلاس میں آ جاتا تھا تاکہ بڑے بھائی کے ساتھ مل کر گھر جائے۔ اس چھوٹے بھائی کے آنے سے ہماری کلاس میں گویا رونق آ جاتی، سب لڑکے اس کی توتلی باتیں سننے کیلئے اسے اپنے پاس بٹھانے کی کوشش کرتے، سب سے بڑا لالچ "تجھے گولا لے دونگا" ہوتا تھا۔

پھر بچے کو شاید اس کے بھائی نے سکھایا تو وہ "برف والے گولے" کا لالچ دینے والے کو سامنے سے کورا جواب کچھ یوں دیتا تھا، ہم ڈولے نئیں تھاتے، ہمیں ٹھانسی ہو جاتی ہے۔ ایک بار پہلے یہاں ملنے والی مرچوں کی بیسیوں اقسام اور ان کی بے تحاشہ پیداوار پر لکھا تھا۔ بہت سارے کمنٹس یہ بتانے والے لوگوں کے تھے کہ "ان مرچوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ادھر ہمارے یو اے ای کی سپر مارکیٹس میں رُل رہی ہوتی ہیں۔

ہم نے کبھی نہیں خریدی اور نہ ہی کبھی منہ لگایا ہے" مجھے اس پر بھی ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ لاہور سے ادھر چین میں آنے والے ایک دوست اکثر کہتے، سلیم پائین، پھل تے بس ساڈے پاکستان دے کھانڑ آلے ہوندے نیں۔ جب مجھے ان کی منطق سمجھ آ گئی تو پھر میں جب بھی ان سے ملاقات کیلئے جاتا تو ساتھ کچھ پھل بھی لیجاتا تاکہ انہیں اپنے جیبی کیلکولیٹر کی مدد سے یوان میں خریدے گئے۔

پھلوں کا ذائقہ روپوں میں تبدیل کر کے دردناک یا مزیدار نہ محسوس کرنا پڑے۔ نور کلینک والا بھی یہی کچھ لکھتا تھا کہ ہم مسلمانوں نے ٹیکنالوجی یا سائنس میں تو کوئی کلہ نہیں گاڑا، جو کچھ میسر ہے۔ اسی میں ہی کچھ بہتر کرتے، بہرحال جس رفتار سے کالونیز اور سوسائٹیز بن رہی ہیں۔ ہمارے "ٹیسٹ بڈز" لا محالہ باہرلی چیزوں کے ذائقوں سے ہم آہنگ ہو ہی جائیں گے۔ تب تک آپ سولاں کلو فی ایکڑ پیداوار والی مائیکرو مرچیں کاشت کرتے رہیئے۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad