Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saleem
  4. Daur Peeche Ki Taraf Aye Gardish e Ayyam Tu

Daur Peeche Ki Taraf Aye Gardish e Ayyam Tu

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

آجکل چین میں ایک ٹرینڈ زوروں پر ہے۔ ایک چھوٹے ٹماٹر کو ٹوٹھ پک کے ساتھ بڑے ٹماٹر پر سر کی طرح فٹ، اوپر والے چھوٹے ٹماٹر پر دُمبی سٹی کے دو چھوٹے سٹے بطور کان، دو قدرے بڑے سٹے نچلے بڑے ٹماٹر کے پیچھے بطور دم، چار ٹوٹھ پکس یا کاٹن بڈز بڑے ٹماٹر کے نیچے بطور ٹانگیں۔ اور یہ چھوٹا پرندہ، خرگوش یا جانور ہر کار کے شیشوں یا ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کوئی فرد اس "کری ایٹی ٹویٹی" سے محروم نہیں رہنا چاہتا، ٹک ٹوک سمیت ہر مقامی سوشل میڈیا سائٹ ان چیزوں سے بھری پڑی ہے۔

ٹرینڈ زوروں پر ہے تو ورائیٹی بھی آ رہی ہے۔ بات چھوٹے ٹماٹر بڑے ٹماٹر سے بہت آگے چلی گئی ہے۔ چھوٹا انگور بڑا انگور، چھوٹا آلو بڑا آلو، چھوٹا عناب بڑا عناب، چھوٹا تربوز بڑا تربوز۔۔ اینڈ تھنگز گو آن۔۔

(دمبی سٹی گندم کے کاشتکاروں کا درد سر خود رو جڑی بوٹی ہے، مگر یہاں پر نمائشی کھیتوں کے کھیت اس سے آباد ہیں۔ ہر خشک پھولوں کے گلدستے کی جان ہے، باقاعدہ کاشت ہوتی ہے اور استعمال میں لائی جاتی ہے)۔

گھر کے ہر فرد کے پاس ایک موبائل اور اپنی علیحدہ علیحدہ سواری ہونے سے بہت پہلے اور سوشل میڈیا کی طاقت کے بغیر بھی ہم نے بہت سارے خاموشی سے بنتے ٹرینڈز دیکھے ہوئے ہیں۔ جن سے حاصل ہونے والی خوشی صدیوں کی کہانیاں تراشتی تھیں۔

آدھے سے زیادہ اندرون ملتان کا لگژری ناشتہ اور ڈنر "آلو بھی چھولے" والے سے یہ لافانی اور ابدی پکوان لا کر گھر میں ہی ہو جاتا تھا۔ کبھی کبھی اس یکسانیت کا توڑ موسٹ ہائی لیول "بوڑ" کہا جانے والا گوشت کا سالن لا کر کیا جاتا تھا۔ دیگر ورائیٹیز میں اوجھڑی کا سالن بھی بہت بڑا آپشن ہوا کرتا تھا۔

دادے کی جوانی میں دی ہوئی درخواست پر پوتے کے ہونے پر جو فون لگتا تھا اس کی تالے والی صندوق کا تالہ کھولنا بھی ایک پرسٹیج ہوتی تھی اور لپک کر ریسیور کو پہلے کریڈل سے اٹھا کر ہیلو کہنا زندگی کی بڑی جیتوں میں سے ایک جیت ہوا کرتی تھی۔

کسی کے گھر میں لگا ہوا تندور اطراف کے کئی گھروں کا "سوشل میٹ اپ ہب" ہوا کرتا تھا۔ پہلے سے گرم تندور میں مفت یا اپنی طرف سے دو اور اوپلے لا کر نیا گرم تندور کرکے روٹیاں پکا لینا ایک فینٹیزی تھی۔

پیازوں کو بہت سارا نمک ڈال کر اچھی طرح مل کر دھونے کے بعد نمک مرچ ڈال کر ان سے روٹی کھانا کئی مرغ مسلم سے زیادہ مزیدار۔ اگر اس پر نِبو چھڑک لیا اور ایک سبز مرچ کتر کر ڈال لی تو ہرن کے گوشت جیسا سوادی، اور تھوڑے سے مکھن کا اضافہ ہوگیا تو من و سلوی بن جاتا تھا۔

انار دانے، سبز مرچ اور نمک مرچ ڈال کر کوٹی ہوئی چٹنی روز روز تو نہیں بن سکتی تھی۔ جب بنتی تو اس میں تھوڑی سی دہی یا لسی ملانا اس کے ذائقے کو کئی درجہ اوپر انہانس کرنا ہوتا تھا۔

ٹماٹر پودینے اور سبز مرچوں کی چٹنی تو بہت بعد اور تب کی ایجاد ہے جب معاشی فراوانی کا دور تھا۔ چٹنی فل ٹائم میل ہوا کرتا تھا سائیڈ ڈش نہیں۔ اور یہ عیاشی روز روز بھی نہیں ہو سکتی تھی۔

ریڈیو چلانے کیلیئے تو نانا جی کو نیم کے درخت کے نیچے چھڑکاؤ مار کر چارپائی پر کھیس اور سرہانہ ڈال کر دینا پڑتا تھا۔ پہلے حقہ پیش کیا جاتا اور بعد میں ریڈیو آن ہوتا۔

تڑکے والی دال دیکر تو گوشت کا سالن بھی مانگ لیا جاتا تھا، سبزی اور بھرتہ تو ویسے ہی ہمسایوں سے مل جایا کرتا تھا۔

اللہ جھوٹ نہ بلوائے مرغیاں اس زمانے میں بھی اتنی سی ہی ہوتی تھیں اور انڈے بھی لگ بھگ اتنے سے حجم کے ہی ہوتے تھے۔ لیکن آدھا سیر یا تین پاؤ مرغی کا گوشت تو مہمانون کے آنے پر ہی بنتا تھا آلو ڈال کر پورے کنبے کی عیاشی کا کام دیتا تھا۔ جبکہ دو انڈوں کو پیاز اور ٹماٹر کے ساتھ پکا کر پوری ہانڈی بن جاتی تھی۔ گھر میں پالی ہوئی ایک دو مرغیاں پورے پورے گھر کی کفالت کر جاتی تھیں۔

پھل تو مہمان کے آنے پر ہی خریدے جاتے تھے۔ ڈبل روٹی مریض کیلیئے مخصوص ہوتی تھی۔ چائے کے ساتھ پاپے کھانے کیلیئے ہلکے پھلکے بخار کا ڈرامہ بھی ہوتا تھا۔

کپڑوں کی موجیں تھیں۔ عید والا جوڑا شادی پر بھی چل جاتا تھا اور شادی والی جوتیاں تو سکول کو ہی ذہن میں رکھ کر لی جاتی تھیں۔

زندگی اتنی بری بھی نہیں تھی۔ رشتے آج سے زیادہ مضبوط تھے۔ گزارے آج سے زیادہ اچھے ہوتے تھے اور صحت کے مسائل نہ ہونے کے برابر یا کم از کم آج سے تھوڑے ہی تھے۔

واپس لوٹنا ہی پڑے گا آج نہیں تو کل کو، خواستہ یا بادل نخواستہ؛ آج اپنی اصل کی طرف اپنی مرضی سے لوٹا جا سکتا ہے جبکہ کل اس وقت جب چند بھیڑیں یا چند بکریاں لیکر پہاڑوں پر جا بسنے والا ہر فتنے فساد اور بیماری سے محفوظ ہوگا۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal