Controlled Ebadat
کنٹرولڈ عبادات
پاکستان کی بیشتر مساجد میں صبح کی نماز میں عموما جماعت کے بعد ایک تسبیح کرنے جتنا وقت دیکر فورا ہی بآواز بلند لا الہ الا اللہ کا ورد کیا جاتا ہے۔ کئی بار کے ورد کے بعد امام صاحب اس کلمہ کو محمد رسول اللہ کہہ کر مکمل کرتے ہیں۔ جو اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس ورد کا اختتام ہوا۔ اس کے بعد سب لوگ صلواۃ و سلام پڑھتے ہیں۔ جس کا اختتام امام صاحب کرا کر ایک اجتماعی دعا کراتے ہیں۔
دعا کے بعد سب لوگ کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے اور ملتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی فورا اجتماعی دعا ہوتی ہے، اور لوگ سنتیں ادا کر کے اپنے طور پر بھی دعا مانگتے ہیں اور باہر کی راہ لیتے ہیں۔ عصر کی نماز واحد نماز ہوتی ہے۔ جس میں امام صاحب نماز کے بعد نمازیوں کو تسبیح کرنے کا وقت خاموشی سے دیتے ہیں۔ امام صاحب اپنی تسبیح ختم کر کے ایک اجتماعی دعا کراتے ہیں اور سب لوگ چلے جاتے ہیں۔
مغرب کی نماز کے فورا بعد دعا ہوتی ہے اور عشاء کی نماز ختم ہوتے ہی اجتماعی دعا والا یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ بعد میں لوگ اپنی اپنی نماز مکمل کر کے اپنے طور پر دعا مانگتے اور گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد کے مسنونہ اذکار کیا ہیں کا اہتمام شاید ہی کہیں نظر آتا ہو یا خال خال ہی ایسے آئمہ کرام ہونگے، جو نمازیوں کو نماز کے بعد کے مسنونہ اذکار کرنے کا وقت دیتے ہونگے۔
اس عنصر کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام صاحب نے بھی اپنے بہت سارے کام سر انجام دینا ہوتے ہیں، اس لیئے وہ جتنی جلدی دعا کرا سکیں کراتے ہیں۔ جو اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس نماز کا فریضہ سرانجام دیدیا گیا، اب سب لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی واپس اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ برصغیری نمازی بھی ابھی تک اتنے بالغ نہیں ہو سکے کہ اپنے طور پر اپنی مناجات، عرضی اور درخواست بارگاہ ایزدی میں پیش کر سکیں۔
جب تک امام صاحب دعا کیلیئے ان کی مدد نہ کریں وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ابھی کام مکمل نہیں ہوا اور انتظار میں ہی رہتے ہیں۔ امام صاحب یہ جاننے کے باوجود بھی۔ کہ بآواز بلند اور زور سے مانگی ہوئی دعا لوگوں کیلیئے تو ہو سکتی ہے، اللہ کیلیئے بالکل نہیں، پھر بھی لوگوں کی عادت کو پورا کرنے کیلیئے باقاعدگی سے بآواز بلند دعا کراتے ہیں۔ جامع مسنونہ دعاؤں کے بدلے میں تک بندی والی دعاؤں کو زیادہ پزیرائی ملنے کی وجہ سے اجتماعی دعا میں عموما مسنونہ دعاؤں سے اسی لیئے گریز اور تک بندی پر زور دیا جاتا ہے۔
کیا ایسا تو نہیں کہ ہر زمانے کی "اسٹیبلشمنٹ" نے آئمہ کرام کو یہ فرض سونپا ہو کہ نماز کو جلدی ختم کرا کر ان نمازیوں کو بیرکوں میں واپس بھی دھکیلا کرو، تاکہ یہ سر جھکائے اُدھر مسجد میں ہی نہ بیٹھے رہا کریں؟ نمازی نوجوان ہے یا چل چلاؤ کے وقت میں جی رہا بزرگ سب ہی اذکار کی اہمیت سے نا آشنا ایک مشینی اور "کنٹرولڈ عبادت" کے عادی بن چکے ہیں۔ کوئی بھی ایک لمحہ مزید مسجد میں رہنا، یاد اللہ میں صرف کرنا یا ندامت کے ساتھ سر جھکا کر نہیں گزارنا چاہتا۔
میں جانتا ہوں کہ نماز یا نماز کے بعد کی سرمنی (ceremony) مختلف فرقوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اور اسے چاہ کر بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیا نمازی بھی بالغ نہیں ہونا چاہتے کہ اپنے طور پر سر جھکائے نماز کے بعد کے اذکار، صبح کے اذکار یا شام کے اذکار سے لذت کشید کر سکیں؟ نماز میں جب دعا کا مرحلہ (تشہد کے بعد) آتا ہے۔ اس میں ہم فرقہ پرستی کی وجہ سے دعا مانگنے کی عادت نہیں بنا سکے اور نماز کے بعد جب نماز کے ثمرات پانے کیلیئے اذکار کا وقت ہوتا ہے۔
اس وقت ہمیں دعا کی پڑی ہوتی ہے۔ کیا اس کنٹرولڈ عبادت کیلیئے آپ اپنے آپ کو غلام نہیں محسوس کر رہے؟ کیا آپ اصل کی طرف نہیں لوٹنا چاہتے؟ کیا آپ نماز کے بعد کے مسنونہ اذکار (جو ہمارے آقاؑ کے معمولات میں تھے) کو جاننے اور کرنے کی جستجو نہیں کرنا چاہتے؟ فرقہ واریت سے ذرا سا اوپر ہو کر اس بارے میں ضرور سوچیئے کہ یہ آپ کا، آپ کی فلاح کا اور آپ کی عاقبت و آخرت کا معاملہ ہے۔
حسن ظن رکھ کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ لوگ (نمازی) نماز کے بعد کے اذکار گھر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اور صبح کے اذکار گھر پہنچ کر کرتے ہونگے اور تلاوات کلام پاک بھی گھر میں ہی کرتے ہونگے۔ ورنہ مساجد میں اب یہ کام نظر نہیں آتے۔