Safiad Poshon Ki Talash Aur Hamari Mazhabi Munafiqat
سفید پوشوں کی تلاش اور ہماری مذہبی منافقت

رمضان آ رہا ہے۔ بازار روشن ہوں گے، مساجد بھر جائیں گی، خیرات کے اشتہارات دیواروں پر چسپاں ہوں گے اور سوشل میڈیا پر نیکی کے قصے دھڑا دھڑ پوسٹ کیے جائیں گے۔ ہم سحری اور افطاری کے دستر خوانوں کی تصاویر شیئر کریں گے، مہنگے کھانوں کے ساتھ "الحمدللہ" لکھیں گے اور ساتھ ہی چند سو روپے کسی بھکاری کو دے کر اپنے ضمیر کو سکون بھی بخش لیں گے۔ لیکن کیا واقعی ہم نیکی کر رہے ہوں گے؟ یا یہ سب محض دکھاوا ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ بھکاریوں کو دینا ٹھیک نہیں۔ وہ پیشہ ور ہوتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں اور ہماری دی ہوئی رقم غلط کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، مان لیتے ہیں۔ لیکن پھر ہم مدد کس کی کریں؟ سفید پوش کون ہیں؟ وہ کہاں ہیں؟ ہمیں کیوں نظر نہیں آتے؟
ہمیں نظر نہیں آتے کیونکہ ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم خیرات ایسے دیتے ہیں جیسے کوئی ٹرافی ہو، کسی کو عزت سے دینا تو دور کی بات، ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا نام، ہمارا چہرہ اور ہماری سخاوت سب کو معلوم ہو۔ ہم مسجد میں چندہ دیتے ہیں، لیکن اگر امام صاحب سے کبھی سوال کریں کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے، تو شاید ہمیں احساس ہو کہ وہ بھی سفید پوشوں میں شامل ہیں۔
ہماری نمازوں میں سادگی اور انکساری کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن رمضان میں ہمارا رویہ دیکھیں۔ سحری میں ہمارے دستر خوان بھاری ہوتے ہیں، افطار میں ضیافتیں لگتی ہیں اور اس کے بعد تراویح میں عاجزی کے درس سننے چلے جاتے ہیں۔ بازاروں میں افطار کے وقت بھوک سے بےحال مزدور ایک سموسے کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں، لیکن ہمارا روزہ تو تب کھلتا ہے جب کھجور کے ساتھ پھلوں کی چاٹ، جوس اور پکوڑوں کا اہتمام ہو۔
ہم زکوٰۃ نکالتے ہیں، لیکن ایسے کہ ہمارے بینک بیلنس پر زیادہ فرق نہ پڑے۔ ہم ان سفید پوشوں کی مدد کرتے ہیں جو ہمارے لیے آسان ہوں، یعنی وہ جو ہمارے گھروں میں کام کرتے ہیں، جنہیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور جو ہمیں شکریہ بھی ادا کریں گے۔ لیکن وہ سبزی بیچنے والا بوڑھا جسے ہر روز دھوپ میں کھڑا دیکھتے ہیں، وہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ وہ رکشہ والا جو دن بھر دھکے کھاتا ہے، وہ ہماری مدد کا مستحق نہیں لگتا۔ وہ ٹیچر جو آدھی تنخواہ پر گزارہ کر رہا ہے، وہ شاید ہمیں نظر ہی نہیں آتا۔
ہم نماز میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں نیکی کی توفیق دے، لیکن جب کوئی سفید پوش ہماری نظروں کے سامنے فاقے کرتا ہے تو ہم رخ پھیر لیتے ہیں۔ ہمیں غربت روتی ہوئی شکل میں چاہیے، آنکھوں میں آنسو ہوں، ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں، تب جا کے ہم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ عزت دار غریب ہمیں متاثر نہیں کرتا، کیونکہ وہ ہماری خیرات کو ظاہر کرنے کا موقع نہیں دیتا۔
ہم رمضان میں تقویٰ اور نیکی کی باتیں کرتے ہیں، لیکن بازار میں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں اور کم تولتے ہیں۔ ہم افطار کے وقت اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن دوسروں کے حصے کا رزق اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خیرات دکھائی دے، لیکن ہماری منافقت چھپی رہے۔
سفید پوش ہماری نظروں کے سامنے ہیں، لیکن ہم نے اپنی آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جو بچہ ورکشاپ پر کام کر رہا ہے، وہ صرف اپنی فیس کے پیسے جمع کر رہا ہے یا گھر کا واحد کفیل ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ جو بزرگ کھوکھے پر بیٹھا چائے بیچ رہا ہے، اس کا گزارہ مشکل ہو چکا ہے۔ ہمیں احساس نہیں کہ جس مالی نے مسجد کے باہر درخت لگائے ہیں، اس کے اپنے بچوں کے پاس جوتے نہیں۔
ہم صرف ان لوگوں کو مدد کے قابل سمجھتے ہیں جو سر جھکا کر، ہاتھ جوڑ کر ہمارے سامنے آئیں۔ جو لوگ خوددار ہیں، جو اپنی عزت نفس بچانے کی کوشش میں خاموشی سے فاقے کر لیتے ہیں، وہ ہمارے لیے غیر مرئی ہوتے ہیں۔
رمضان صرف روزہ رکھنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندر کا حساب کرنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔ اگر واقعی نیکی کرنی ہے، تو کسی ایسے شخص کی مدد کریں جو مانگ نہیں سکتا۔ جو ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت کر رہا ہے، جو اپنی عزت نفس کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، اپنی نیکی کو دکھاوا نہ بنائیں۔ اگر کسی سفید پوش کی مدد کرنی ہے تو خاموشی سے کریں۔ کسی مزدور کے ہاتھ میں پیسے رکھ کر آگے بڑھ جائیں، کسی ضرورت مند کے گھر راشن پہنچا دیں، کسی رکشے والے کی کرایہ دیے بغیر اتر جائیں، کسی مالی کو بغیر کہے اضافی رقم دے دیں۔
نیکی وہی ہے جو عزت کے ساتھ کی جائے اور وہی نیکی قبول ہوتی ہے جو دل میں عاجزی کے ساتھ کی جائے۔ اس بار رمضان میں اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں، سفید پوش آپ کے آس پاس ہی ہیں۔ بس ان کی عزت نفس کا خیال رکھ کر مدد کریں، کیونکہ حقیقی نیکی وہی ہے جو خاموشی سے کی جائے، نہ کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے۔

