Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Nojawano Ki Mayoosi Aur Hamari Behisi

Nojawano Ki Mayoosi Aur Hamari Behisi

نوجوانوں کی مایوسی اور ہماری بے حسی

پاکستان کے گلی کوچوں میں اگر آپ کسی نوجوان کو روک کر پوچھیں کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے، تو ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ اور کندھے اچکانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ کہیں امید کے الفاظ ڈھونڈنے جائیں تو یا تو وہ کتابوں میں بند ملیں گے یا کسی پرانی تقریر کے ٹکڑوں میں۔ عملی زندگی میں، امید کا وہی حال ہے جو کسی پرانی کوٹھی میں رکھے گئے خستہ حال چراغ کا ہوتا ہے، یادگار مگر غیر مفید۔

یہ ایک عجیب دور ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ محنت کرو، کامیابی تمہارا مقدر بنے گی۔ لیکن جب وہ محنت کرتے ہیں تو انہیں بے روزگاری کا سامنا ہوتا ہے اور کامیابی کا دروازہ ان کے چہرے پر بند کر دیا جاتا ہے۔ ڈگریاں صرف دیوار کی زینت بنتی ہیں اور خواب وہی رہتے ہیں، خواب۔ ایک طرف، میرٹ کا راگ الاپا جاتا ہے، دوسری طرف سفارشی نظام کا دیو، عام آدمی کی امیدوں کو نگلتا جا رہا ہے۔

مایوسی اب ایک نفسیاتی بیماری نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ گھر کا سب سے سمجھدار بیٹا سب سے زیادہ پریشان حال ہوتا ہے، کیونکہ اسے ہر وقت یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ زندگی محض ایک جدوجہد ہے اور اس کا انجام صرف صبر اور قربانی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ، قربانی ہمیشہ عام آدمی ہی دے، اور، صبر کی تلقین ہمیشہ ان کو کی جائے جو سب سے زیادہ سہہ رہے ہوں۔

کبھی ہم نے سوچا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ ہمیں ایک ایسی ریاست دی گئی تھی جو ایک خواب کی تعبیر تھی۔ ہم نے اس خواب کو پہلے مفادات میں بدلا، پھر اسے دیوار پر لگا کر عقیدت کے طور پر دیکھنے لگے۔ عملی طور پر، ہم نے اس خواب سے منہ موڑ لیا۔

یہاں ہر آدمی دوسرے کو دوش دیتا ہے، لیکن خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کو تیار نہیں۔ سیاستدان عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں اور عوام سیاستدانوں کو چور۔ نتیجہ؟ ایک ایسا ملک جہاں انتخابات ہوں یا نہ ہوں، فرق کچھ نہیں پڑتا۔ ایک ایسا ملک جہاں عدل کا نظام کاغذوں پر چلتا ہے اور معیشت صرف سروے رپورٹس میں بہتر دکھائی دیتی ہے۔

نوجوان سوچتے ہیں کہ ملک کو بہتر بنائیں، لیکن ان کے پاس وسائل نہیں۔ جو وسائل رکھتے ہیں، وہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ نتیجہ؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر آدمی بس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اجتماعی ترقی کا تصور مزاحیہ لگنے لگا ہے۔

یہ بے حسی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ والدین بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ حقیقت پسند بنو، خواب نہ دیکھو۔ استاد طالبعلم کو کہتے ہیں کہ سوال مت کرو، جو لکھا ہے بس وہی یاد کر لو۔ حکمران عوام کو تلقین کرتے ہیں کہ قربانی دو، مگر خود ایک لمحے کے لیے بھی اپنی مراعات کم کرنے پر راضی نہیں۔

اگر کوئی نوجوان بولنے کی کوشش کرے، تو اسے بغاوت کا الزام دے کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی محنت کرے، تو اس کے خواب نوکری کے اشتہارات میں دفن ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی ملک چھوڑنے کا سوچے، تو اسے غدار کہا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں نوجوان کیا کرے؟ کیا وہ صرف انتظار کرے کہ حالات بہتر ہوں؟ یا پھر وہ کسی معجزے کی دعا کرے؟ لیکن معجزے ان قوموں کے لیے ہوتے ہیں جو ان کے لیے محنت کرتی ہیں۔ جو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں مگر خود کچھ نہیں کرتے، وہ ہمیشہ انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔

مایوسی کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ عمل کو روکتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ہم بس مایوس ہو کر بیٹھ سکتے ہیں؟ نہیں! جو لوگ اس سسٹم سے تنگ ہیں، انہیں اس کا حصہ بننے کے بجائے اسے بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ یہ کام آسان نہیں، لیکن ناممکن بھی نہیں۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک عام آدمی کیا کر سکتا ہے؟

جواب: اپنی جگہ پر دیانتداری اختیار کرے، سچ بولے اور جو ممکن ہو وہ کرے۔ چھوٹے چھوٹے قدم ہی کسی بڑے سفر کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے، خود کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ یہ ملک کسی ایک حکمران، کسی ایک پارٹی، یا کسی ایک ادارے کا محتاج نہیں – یہ ہم سب کا ہے اور جب تک ہم خود کو نہ بدلیں، کوئی نظام، کوئی لیڈر اور کوئی انقلاب ہماری حالت نہیں بدلے گا۔

مایوسی کا علاج عمل ہے اور اگر ہم اب بھی عمل نہیں کریں گے، تو پھر شاید ہم اس خواب کے ہمیشہ کے لیے مقروض رہیں، جسے ہم نے خود ایک مذاق بنا دیا ہے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr