Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Musalmano Ki Ghairat, Aalmi Istemar Ka Insaf

Musalmano Ki Ghairat, Aalmi Istemar Ka Insaf

مسلمانوں کی غیرت، عالمی استعمار کا انصاف

کہاں گئے وہ دن جب امت محمدیہ ﷺ ایک جسم کی مانند تھی، ایک حصے کو تکلیف ہوتی تو دوسرا بےچین ہو جاتا؟ کہاں گئے وہ لوگ جو مظلوموں کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے؟ کہاں گئی وہ روح جو کہتی تھی کہ "لبیک اللہم لبیک"؟ آج فلسطین جل رہا ہے، شام خاک میں مل رہا ہے، کشمیر سسک رہا ہے، مگر امت سو رہی ہے اور جو جاگے ہوئے ہیں وہ بس زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگا کر واپس اپنی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ عالمی استعمار کو سب کچھ یاد ہے، ان کی انصاف کی ترازو بھی خوب ناپ تول کر کام کرتی ہے۔ کنڑ کے سارے اہل حدیث یاد آ جاتے ہیں، فلسطین کے سارے شافعی بھی نظر آ جاتے ہیں، الجزائر کے مالکی بھی دکھائی دیتے ہیں، شام کے حنبلی بھی ان کے انصاف کے دائرے میں آ جاتے ہیں اور پھر فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ "معاف کر دیا! " دنیا نے معاف کر دیا، تاریخ نے معاف کر دیا، وہ جو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیے گئے، وہ جو گلیوں میں بہتے خون کے ندیوں میں ڈھل گئے، ان کے قاتل آزاد ہیں، ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنانے والے سرخرو ہیں، ان کے بچوں کے سروں پر بم برسانے والے عالمی امن کے ٹھیکیدار ہیں۔

یہی عالمی استعمار ہے جو ایک فلسطینی بچے کے ہاتھ میں پتھر دیکھ کر کانفرنسیں بلا لیتا ہے، انسانی حقوق کے علمبردار حرکت میں آ جاتے ہیں، مگر یہی عالمی برادری اسرائیلی بمباری کے لیے خاموش رہتی ہے۔ یہ وہی مہذب دنیا ہے جو مسلمانوں کی غیرت کو پس پشت ڈال کر ہمیں سکھاتی ہے کہ کیسے جینا ہے، کیسے مرنا ہے اور کیسے معاف کرنا ہے۔

کہاں ہے وہ امت جسے کلمہ پڑھنے پر فخر تھا؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے تھے "لبیک یا رسول اللہ ﷺ"؟ کہاں ہیں وہ جو دین کی سربلندی کے لیے کھڑے ہونے کو سعادت سمجھتے تھے؟ آج اگر کوئی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ شدت پسند، دہشت گرد اور انتہاپسند کہلاتا ہے اور جو ظالم ہیں وہ "حفاظتی اقدامات" کا جواز دے کر ہر حد پار کر جاتے ہیں۔

ہماری بزدلی کا یہ عالم ہے کہ ہم فلسطین کے لیے روتے تو ہیں مگر عملی اقدام نہیں کرتے۔ ہم کشمیر کے زخموں پر نوحہ تو پڑھتے ہیں مگر انہیں مرہم دینے کے بجائے ٹی وی کی سکرین پر بدلتے ہیں۔ ہم شام اور برما کی مظلومیت پر افسوس تو کرتے ہیں مگر ہماری عملی حیثیت صرف سوشل میڈیا کے پوسٹس تک محدود ہے۔ ہم ٹک ٹاک پر، فیس بک پر، انسٹاگرام پر انقلاب لے آئے ہیں، مگر حقیقی دنیا میں ہم سے بڑا کوئی غلام نہیں۔

ہمارے نعرے بڑے دلچسپ ہیں۔ کشمیر زندہ باد، فلسطین زندہ باد، پنجاب زندہ باد، بلوچستان زندہ باد، مگر اسلام؟ وہ کہیں ذکر میں بھی نہیں آتا۔ ہم قوموں میں بٹ چکے ہیں، ہم زبانوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، ہم فرقوں میں قید ہو چکے ہیں۔ ہم پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان، سرائیکی، مہاجر تو ہیں، مگر مسلمان؟ وہ تو بس نماز کے وقت، جنازے کے وقت، یا کسی مظاہرے کے بینر پر ہی یاد آتا ہے۔

ہماری غیرت کو نیند کیوں آ گئی ہے؟ ہماری حمیت کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا ہم واقعی اپنی بے حسی کے عادی ہو چکے ہیں؟ ہمیں صرف اپنی نوکری کی فکر ہے، ہمیں صرف اپنے کاروبار کی فکر ہے، ہمیں صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے، مگر امت کا کیا ہوگا؟ وہ امت جس کا ذکر قرآن میں ہے، جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں" کیا وہ جسم مر چکا؟ یا وہ صرف نیم مردہ ہو چکا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ آج عالمی استعمار نے سب کچھ معاف کر دیا۔ وہ ظالم معاف کر دیے گئے جو معصوموں کے خون میں ہاتھ رنگتے رہے، وہ جابر چھوڑ دیے گئے جو بستیاں جلا کر راکھ کر گئے، مگر وہ جو مظلوم تھے؟ ان کی چیخیں آج بھی سنائی دیتی ہیں، ان کے آنسو آج بھی بہہ رہے ہیں، ان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔

اور ہم؟ ہم آج بھی بےحس تماشائی ہیں۔ ہم آج بھی نعرے لگا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض پورا کر دیا۔ ہم آج بھی زندہ باد اور مردہ باد میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تب تک نہیں جی سکتے جب تک اسلام زندہ نہیں ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی قوم، کوئی بھی زبان، کوئی بھی نسل، کوئی بھی فرقہ ہمیں وہ عزت نہیں دے سکتا جو اسلام ہمیں دے سکتا ہے۔

جب تک ہم نے اپنے اصل مقصد کو فراموش کیا ہوا ہے، جب تک ہم نے اپنی اصل پہچان کو مٹایا ہوا ہے، جب تک ہم نے اپنی آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھی ہوئی ہے، تب تک ہمارا یہی حال رہے گا۔ ہم ایسے ہی مرتے رہیں گے، ہم ایسے ہی روتے رہیں گے، ہم ایسے ہی گرتے رہیں گے اور پھر عالمی استعمار ایک بار پھر فیصلہ سنائے گا:

"معاف کر دیا! "

مگر سوال یہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کب تک معاف کرتی رہے گی؟ کب تک مظلومیت کا ماتم کرتی رہے گی؟ کب تک تاریخ کا مردہ ورق بنی رہے گی؟ کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم اپنی بے حسی کو ختم کریں، اپنی غیرت کو جگائیں اور اسلام کو واقعی زندہ کریں؟ کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم محض نعرے نہ لگائیں بلکہ عملی طور پر اپنی پہچان کو ثابت کریں؟

یہی وہ سوال ہے جو ہمیں خود سے پوچھنا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں دینا ہے اور اگر ہم نے آج بھی جواب نہ دیا تو کل تاریخ ہمیں بھی انہی مظلوموں کی صف میں کھڑا کر دے گی، جن کے قاتل ہمیشہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr