Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Agar Qanoon Sab Ke Liye Nahi, To Kisi Ke Liye Nahi

Agar Qanoon Sab Ke Liye Nahi, To Kisi Ke Liye Nahi

اگر قانون سب کے لیے نہیں، تو کسی کے لیے نہیں

دنیا انصاف، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی بات تو کرتی ہے، لیکن جب بات اسرائیل کی آتی ہے، تو یہ تمام اصول ایک پل میں خاک ہو جاتے ہیں۔ دہائیوں سے اقوام متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کی رپورٹس، جنگی جرائم کے شواہد، سب کچھ موجود ہے، لیکن اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیونکہ اسے طاقتور اتحادیوں کا تحفظ حاصل ہے اور یہ تحفظ صرف اسرائیل کو نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ظالموں کو ایک خطرناک پیغام دیتا ہے: اگر تمہارے ساتھ صحیح لوگ کھڑے ہوں، تو تم جو چاہو کر سکتے ہو، بغیر کسی قیمت کے۔

2023 اور 2024 میں غزہ پر اسرائیل کا حملہ ایک المیہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا، ریاستی سطح پر کیا گیا انسانیت سوز جرم تھا۔ ہزاروں شہری مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، بچوں کو مارا گیا، اسپتالوں پر بمباری کی گئی اور خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے جنگی جرم قرار دیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے چیخ چیخ کر بتایا کہ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ لیکن دنیا؟ وہ خاموش رہی۔ کچھ نے مذمت کی، لیکن اصل طاقت رکھنے والے ممالک، بالخصوص امریکا، نے اسرائیل کو اس ظلم کے صلے میں اور زیادہ ہتھیار دیے۔

امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سیز فائر کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کیا۔ آخری ویٹو جون 2025 میں ہوا۔ مطلب صاف ہے: عالمی انصاف صرف ان کے لیے ہے جو مغربی مفادات کے خلاف نہ ہوں۔

اسرائیل کو دی گئی یہ استثنیٰ محض مشرق وسطیٰ کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ اب ایک عالمی نظام کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ جب قانون کو صرف منتخب اقوام پر لاگو کیا جائے، تو اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ یہ رویہ صرف اسرائیل کو نہیں، بلکہ دنیا بھر کے آمرانہ حکمرانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ بھی طاقت کے بل بوتے پر قانون کو روند سکتے ہیں۔

ایسے وقت میں جب دنیا کثیر قطبی نظام (Multipolarity) کی طرف بڑھ رہی ہے اور BRICS جیسے اتحاد ایک "منصفانہ دنیا" کی بات کرتے ہیں، ان کا اسرائیل کے مظالم پر خاموش رہنا ان کی ساکھ کو خود تباہ کر دیتا ہے۔ انصاف صرف بیانات سے نہیں، عمل سے آتا ہے اور جب وہ عمل غائب ہو، تو یہ نئی طاقتیں بھی پرانی طاقتوں جیسے ہی بن جاتی ہیں، صرف چہرے بدلتے ہیں، نظام نہیں۔

مغربی دنیا میں فلسطینی حقوق کی بات کرنا اب جرم بن چکا ہے۔ امریکہ میں اگر کوئی سیاستدان یا صحافی اسرائیل کی پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے، تو اس کا کیریئر خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک میں پرامن فلسطین حامی احتجاج کو روکنے کے لیے "یہود دشمنی" کا بہانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ احتجاج انسانی حقوق پر مبنی ہوتے ہیں۔

یہ سب صرف اسرائیلی پالیسی کا دفاع نہیں، بلکہ ایک بڑے مغربی غلبے کی حفاظت ہے، جہاں اصول صرف تب لاگو ہوتے ہیں، جب وہ مغربی مفاد کے مطابق ہوں۔ جب اسرائیل جیسے ملک کے لیے ہر اصول معطل کر دیا جائے، تو پھر دوسروں کو کیسے کہا جائے کہ وہ قانون کا احترام کریں؟ کیسے توقع کی جائے کہ دنیا کے آمر قانون مانیں گے، جب اسرائیل کو ہر جرم کے باوجود آزادی دی جاتی ہے؟

فلسطینی عوام کی تکلیف محض مقامی نہیں، یہ عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ جب دنیا اسپتالوں پر بمباری، قحط کے ذریعے قتل اور پناہ گزین کیمپوں کی تباہی کو دیکھتی ہے اور پھر بھی خاموش رہتی ہے، تو وہ اپنی ہی اصولوں کی توہین کرتی ہے۔ غزہ اب جنگ کا میدان نہیں، بلکہ اجتماعی قبروں کا خطہ بن چکا ہے، جہاں ہر خاموشی ایک نئی لاش کو جنم دیتی ہے۔

انصاف صرف تب انصاف ہوتا ہے، جب وہ سب پر لاگو ہو۔ اگر ایک ریاست کو قانون سے بالاتر مان لیا جائے، تو یہ پورے عالمی قانون کی موت ہے۔ یہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دیگر اداروں کی ساکھ کو ختم کر دیتا ہے۔ جب ایک قانون سب پر لاگو نہ ہو، تو پھر وہ کسی پر بھی لاگو نہیں ہوتا۔

یہاں صرف فلسطینیوں کی آزادی کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ عالمی نظام کی سچائی کی بات ہو رہی ہے۔ کیا ہم واقعی انصاف پر یقین رکھتے ہیں؟ یا پھر صرف طاقت کو ہی انصاف مانتے ہیں؟ یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، یہ سوال پوری انسانیت کا ہے۔

سول سوسائٹی کو اب خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اسرائیل کو دیے گئے ہتھیار بند کروانے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کو بے اثر بننے سے بچانا ہوگا۔ عالمی عدالتوں کو بااختیار بنانا ہوگا، نہ کہ سبوتاژ کرنا۔ میڈیا کو سچ دکھانا ہوگا، نہ کہ صرف وہی جو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں۔

اگر دنیا نے اسرائیلی استثنیٰ کو چیلنج نہ کیا، تو پھر ہر ظالم کو اجازت مل جائے گی۔ ہر جابر، ہر آمر یہ کہے گا: "اگر اسرائیل کو اجازت ہے، تو مجھے کیوں نہیں؟"

اور یہی وہ لمحہ ہوگا، جب ہم سب کے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگے ہوں گے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr