Pakistan Cricket Ka Tabah Kun Zawal, Barray Operation Clean Up Ki Zaroorat Hai
پاکستان کرکٹ کا تباہ کن زوال، بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے
حالیہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں امریکہ اور بھارت کے خلاف مسلسل شکستوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے اندر بے پناہ گہرے مسائل کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ سلیکشن کمیٹی اور غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر جناب وہاب ریاض کی کارکردگی کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ کپتان بابر اعظم کی قیادت اور کارکردگی دونوں میدانوں میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں، وہ اپنی ٹیم کو متاثر کرنے یا ناقدین کو اپنے بلے سے جواب دینے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس کے سا تھ ساتھ افتخار احمد، عماد وسیم، اعظم خان، محمد عامر، رضوان، فخر زمان، حارث رؤف اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی بھی کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہے اور 25 کروڑ کرکٹ شائقین کے دل شکستگی اور مایوسی کی وجہ بنے ہیں۔
ذیل میں دیے گئے اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پڑھتا جا شرماتا جا۔ بیس اوورز کی کرکٹ میں افتخار احمد کی بیٹنگ اوسط 12.20، 15 اننگز میں صرف 1 نصف سنچری کے ساتھ، وہ ٹیم کے اوپر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ اور ذمہ داری بن چکے ہیں۔
عماد وسیم جن کے لیے قانون بدلے گئے ان سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواست کی گئی اور بڑے ناز و نعم کے ساتھ ان کو ٹیم میں واپس بلایا گیا ان کی کارکردگی ملاحظہ ہو پچھلی 7 اننگز میں صرف 64 رنز بنائے ہیں اور بولنگ کے میدان میں 8 میچوں میں 53.5 کی اوسط سے صرف 4 وکٹیں لے کر، قوم اور ملک کے ساتھ ساتھ اپنی سلیکشن کمیٹی اور سلیکٹرز کی بھرپور شرمندگی کا باعث بنے ہیں بیس اوورز کی کرکٹ میں اعظم خان کی پچھلی 14 اننگز کی بیٹنگ اوسط 8 ہے، پچھلی 10 اننگز میں ایک بھی نصف سنچری نہیں بنا سکے۔ ان کی فٹنس لیول بھی ایک مذاق بن چکی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے لیے بھی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ایک اور شاہکار جن سے ورلڈ کپ سے پہلے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی باقاعدہ درخواست کی گئی اور ان کے ناز نخرے اٹھاتے ہوئے ان کو واپس ٹیم میں لایا گیا وہ جناب محمد عامر ہیں۔ امریکہ کے خلاف سپر اوور کے لیے تمام باولرز کے اوپر محمد عامر کو ترجیح دیتے ہوئے ان کا انتخاب کیا گیا اور محترم جناب نے سپر اوور میں امریکہ کے خلاف 19 رنز دیے جس میں سے سات رنز وائیڈ بالز اور ایکسٹرا کے تھے۔
ایک اور اہم رکن جنہوں نے ہر اہم موقع پر انتہائی بری کارکردگی دکھائی وہ ہیں حارث رؤف ہر بڑے میچ میں مسلسل غیر ذمہ دارانہ بولنگ کرتے ہوئے پاکستان کی ناکامیوں میں مخالف ٹیم سے بھی زیادہ حصہ ملا رہے ہیں ان کی موجودہ فارم اور کارکردگی دونوں قابل رحم ہیں۔ ٹی 20 میں 8 میچوں میں صرف 7 وکٹیں لے کر، ایک معمولی کارکردگی کے ساتھ بہت سارے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔
شاہین شاہ آفریدی کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی میں بولنگ اوسط اور کارکردگی بھی کوئی بہت عمدہ نہیں رہی ہے اور 6 میچوں میں صرف 5 وکٹیں لے کر، ان کے معیار اور سابقہ کارکردگی سے بہت دور کارکردگی ہے۔ شاداب خان جن میں ایک بہترین آل راؤنڈر بننے کا پوٹینشل موجود تھا اپنے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے وہ بھی ٹیم پر مسلسل ایک بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ محمد رضوان کی حالیہ بیٹنگ اوسط بھی مایوس کن ہے اور پچھلے 5 اننگز میں صرف 1 نصف سنچری کے ساتھ 114 رنز بنائے ہیں، ایک سینئر بلے باز کی حیثیت سے مسلسل ناکامی اور مایوسی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔۔
فخر زمان کی حالیہ کارکردگی خاص کر ٹی ٹوئنٹی میں بیٹنگ اوسط صرف 17 رن ہے، 10 اننگز میں صرف 1 نصف سنچری کے ساتھ، ساتھ احساس ذمہ داری اور ایک سینیئر بلے باز کی حیثیت سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی اس میں شامل ہے۔ صائم ایوب اور عثمان خان صلاحیتوں کے مالک ضرور ہیں لیکن جس اعتماد کی کمی کا مظاہرہ اور جس خوف کا مظاہرہ انہوں نے ورلڈ کپ کے اپنے ابتدائی میچوں میں کیا ہے اگر خوف اور اعتماد کی یہی کمی رہی تو بہت جلد ان کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بھی بند ہو سکتے ہیں۔
ان کھلاڑیوں نے نہ صرف ٹیم کو ناکام کیا ہے بلکہ قوم کے اعتماد کو بھی دھوکہ دیا ہے۔ انہوں نے کھیل کا مذاق اڑایا ہے، اور ان کی بدترین کارکردگی نے ٹیم کو زوال کی آخری سطح تک لا پھینکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی ذمہ داری لیں اور پی سی بی ٹیم کے فخر اور مسابقت کو بحال کرنے کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔ سلیکشن کمیٹی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بے رحمی کے ساتھ احتساب اب پی ڈی بی کی ذمہ داری اور قوم کا مطالبہ ہے۔
کھیل قوم کی تعمیر، اتحاد، نظم و ضبط، وقار اور عمدگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیلوں کو تعصب، اقربا پروری اور سیاست سے پاک رکھنا، سب کے لیے برابری کے میدان کو یقینی بنانا ارباب اختیار پر واجب اور نہایت ضروری ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا زوال بدترین کارکردگی، سیاست، اقربا پروری اور بدانتظامی کے نتائج کی واضح مثال ہے۔ یہ تبدیلی کا وقت ہے، قیادت کے ایک نئے دور کا، اور ایک ٹیم جو اپنی عمدہ کارکردگی کے ساتھ پاکستانی قوم کا اعتماد بحال کرے اور دوبارہ سے کھیل کے میدانوں پر راج کرے صرف وہی قوم کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتی ہے۔
پی سی بی کو اب عمل کرنا ہوگا یہ عمل کا وقت ہے اس ٹیم نے قوم کو صرف اور صرف مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلا ہے اور پہلے سے گونا گوں مسائل میں گھری ہوئی قوم کو شکست خوردگی مایوسی ناکامی اور شرمندگی دی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ٹیم کے ساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی کی بھی ایک بڑے اور وسیع پیمانے پر مکمل سرجری کی جائے۔ اس وقت قوم کو نئے، تازہ، قابل اعتماد، جانباز اور صلاحیتوں سے بھرپور نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔