Adam Istehkam Kis Ka Agenda Hai?
عدم استحکام کس کا ایجنڈا ہے؟

پاکستان میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نظام میں مداخلت اور جوڑ توڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخی طور پر، مقتدرہ نے سیاست میں بار بار مداخلت کی ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری ادارے کمزور اور عدم استحکام کا شکار ہوے۔ تاہم 2007 میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط اور 2008 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد ایسا لگتا تھا کہ مداخلت پسندی کا دور شاید ختم ہوگیا ہے۔
میثاق جمہوریت کا مقصد جمہوری حکمرانی کے لیے ایک فریم ورک قائم کرنا، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا اور سیاست میں بیرونی مداخلت کو روکنا تھا۔ اگرچہ یہ معاہدہ جمہوریت کی طرف ایک اہم اور بڑا قدم تھا، لیکن مقتدرہ کی پرانی عادتوں نے دوبارہ سر اٹھایا، اور 2010 میں صرف دو سال بعد ہی مقتدرہ نے پروجیکٹ عمران لانچ کر دیا۔ میثاق جمہوریت کے باوجود، مقتدرہ کی طرف سے سیاسی منظر نامے کی تشکیل اور اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے، پروجیکٹ عمران کو موجودہ دور کا سب سے شرمناک اور تحریک انصاف جیسے سیاسی یتیموں کا ملک اور عوام دشمنی کا پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
پروجیکٹ عمران نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر نامے کو تقریباً تباہ کر دیا ہے۔ یہ سیاسی تجربہ، ثاقب نثارعدلیہ کی ملی بھگت کے ساتھ کیا گیا، جس کا مقصد، میثاق جمہوریت کو بے اثر کرنا، پاکستان کے سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کے امکانات کو معدوم رکھنا، جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مہرے کو اقتدار میں لانا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ابلاغ پر پیسہ پانی کیا، میڈیا مالکان، صحافی، ججز، مذہبی رہنما، شوبز سٹارز، سب پر ریاستی وسائل بے دریغ لٹائے گئے اور عمران خان کو پاکستانی سیاست میں صف اول پر لانے کے لیے اپنا تمام تر اثر و رسوخ استعمال کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدلیہ نے پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کو قانونی حیثیت دینے، سیاسی مخالفین کو نا اہل قرار دینے والے متنازع فیصلے دینے اور 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی حتمی فتح کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پی ٹی آئی کو مقتدرہ کی پشت پناہی کے بعد اس جماعت میں بدترین اور کرپٹ ترین لوگ اپنی اپنی کرپشن کو چھپانے اور مزید لوٹ مار کرنے کے لیے شامل ہو تے گئے۔ یہ سیاسی خواجہ سراؤں کی جماعت 2018 میں فوج کے کندھوں پر اقتدار میں داخل ہوئی، پھر پونے چار سالہ اقتدار کے ہر قدم پر فوج کی حمایت حاصل رہی، اکثر اختلاف رائے، اتحادیوں کو منانے اور اپوزیشن کو خاموش کرنے کے لیے فوج کی حمایت پر انحصار کرتی رہی۔ اس ناپاک اتحاد نے پاکستان کے جمہوری اداروں کو بیحد نقصان پہنچایا، خوف، جبر اور دھمکی کے کلچر کو فروغ دیا۔ عدلیہ نے اختیارات کے اس غلط استعمال کو چیک کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جائز قرار دیتے ہوئے مسلسل آنکھیں بند رکھیں۔
شواہد بار بار پی ٹی آئی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ملی بھگت کا واضح نشان دیتے رہے، جس کی وجہ سے کرپشن، لوٹ مار، ہیرا پھیری اور ادارہ جاتی عدم استحکام کا کلچر عام ہوگیا کیوں کہ جواب دہی اور احتساب کا خوف ختم ہو چکا تھا۔ اس گٹھ جوڑ نے پاکستانی عوام کے سیاست اور جمہوریت پر اعتماد کو بیحد کمزور کردیا، اور ملک کی معاشی اور سیاسی بنیاد کو غیر مستحکم کر دیا۔
سیاسی جوڑ توڑ اور 2018 الیکشن انجینئرنگ میں فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ جیسے فوجی حکام کا ملوث ہونا کس سے ڈھکا چھپا ہے۔ اسی طرح، بدعنوانی اور انتخابی دھاندلی کے واضح ثبوتوں کے باوجود، پی ٹی آئی کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینے میں عدلیہ کی مداخلت نے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا اور استثنیٰ کے کلچر کو برقرار رکھا۔
پی ٹی آئی کا دور معاشی ناکامیوں سے نشان زد تھا، جس میں آئی ایم ایف سے دوبارہ قرض لینا، سی پیک بند کرنا، خفیہ معاہدات آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ کے حوالے کرنا، اقربا پروری، بدعنوانی، کرپشن، نااہلی اور لوٹ مار، روپے کی قدر میں کمی، پچیس ہزار ارب کے نئے قرضے اور ملک کے نام پر لیے گئے قرضے سارے اپنی جیبوں میں بھرنا شامل تھا، جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور 25 ملین مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔
مقتدرہ نے 2022 میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور تحریک انصاف حکومت کی پشت پناہی ترک کر دی۔ نتیجتاً تحریک انصاف کی حکومت گر گئی۔ لیکن اس وقت تک یہ بدطینت ٹولہ عدلیہ، میڈیا، سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور جغرافیائی اور داخلی سرحدوں میں موجود فالٹ لائنز میں نفرت، تعصب، لالچ اور وطن دشمنی کی لینڈ مائنز بچھا چکا تھا۔ اس کے حکومت سے رخصت ہونے سے 9 مئی2023 تک تحریک انصاف کا ہر اقدام وطن دشمنی اور آئین شکنی سے عبارت ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
جب نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالا تو معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر تھی اور ملک میں ہر طرف بدامنی اور لاقانونیت کے ساتھ ساتھ کرپشن بدعنوانی اقربا پروری اور لوٹ مار کا راج تھا۔ نگران حکومت نے دگرگوں حالات میں معاشی بحالی کا پروگرام شروع کیا، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل (SIFC) قائم کیا، روپے کی قدر مستحکم اور ڈالر کو لگام ڈالی۔ ملک میں انتخابات کروائے اور پُرامن اقتدار کی تبدیلی کے بعد قائم ہونے والی مسلم لیگ کی مخلوط حکومت نے سی پیک فیز 2 شروع کیا۔
مہنگائی کو چالیس فیصد سے بارہ فیصد پر لے آئے، ایران اور روس کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے معیشت بحال ہونے لگی اور معاشی اشاریے مثبت ہونا شروع ہو گئے تو عین اسی وقت عدلیہ میں موجود پروجیکٹ عمران کی باقیات نے پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اس ملک دشمن پروجیکٹ عمران کو دوبارہ بحال کرنے کی آخری کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اہل وطن ایک بات یاد رکھیں کہ پروجیکٹ عمران کی مکمل تلفی تک پاکستان کی معیشت کی بحالی، اور ملک میں امن اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
امن و استحکام معاشی ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ کوئی بھی قوم مستحکم سیاسی ماحول اور پرامن معاشرے کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے، بیرونی ہاتھوں نے ہمیشہ، اندرونی سہولت کاروں کی مدد سے ہی پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار کیا جو ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اگر پاکستان کے 250 ملین لوگوں نے امن، استحکام، معاشی ترقی اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کرنا ہے ہے، تو اسے پروجیکٹ عمران اور اس کی باقیات یعنی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بچھائی ہوئی لینڈ مائنز سے مکمل نجات حاصل کرنا ہوگی اور یہ کام پوری قوم کے اتحاد اور تعاون سے ہی ممکن ہے۔ قوم سیاسی جوڑ توڑ اور معاشی تجربات کے ہاتھوں یرغمال بننے کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان آگے بڑھے، ایک روشن مستقبل کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی، امن اور استحکام کو یقینی بنائے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی سے خیبر تک پوری قوم متحد ہو جائے اور ریاست، عوام، منتخب نمائندے اپنی امن و سلامتی کے ضامن اداروں کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے۔ احمد فراز کے الفاظ میں:
اب تو ہوں جیسے بھی حالات ہمارے لوگو
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو
آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو