Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Raiyd Khan
  4. Populism Pakistan Mein, Asbab O Sadd e Baab

Populism Pakistan Mein, Asbab O Sadd e Baab

پاپولزم پاکستان میں، اسباب و سد باب

علم سیاسیات کی اصطلاح "عمومیت پسندی" یا "پاپولزم"، پاکستانی سماج کا ہمیشہ سے ہی ناقابلِ فراموش خاصا رہی ہے کیونکہ اس ملک کی اشرافیہ کے منچلے سیاستدانوں نے ہمیشہ عوامی جذبات کو "مذہب کارڈ" کا استعمال کرکے یا "قومی و برادری" تشخص کی بنیاد پرہی مشتعل کیا ہے اور کبھی بھی خالص سیاسی نظریات کو اپنی سیاست میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ پے در پے رونما ہونے والے مارشل لاز نے اور آمروں کے کفن سے لپٹے سیاستدانوں نے ہمیشہ ہی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اپنے قدم جمائے رکھے ہیں اور نظریاتی سیاستدانوں اور نظریاتی و اصولی سیاست کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا مطالعہ اور مشاہدہ کرکے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر کسی نے میکیاولی کی "دی پرنس" تو پڑھ رکھی ہے لیکن چانکیہ کی "ارتھ شاستر" اور روسو کی "معاہدہ عمرانی" کو پڑھنا بھول گئے ہیں جو سیاستدان (اسٹیٹس مین) کو ایک سیاسی ضابطۂ اخلاق سے نوازتی ہیں۔ عمومیت پسندی کا کردار پاکستانی سماج میں کافی گہرا اثر رکھتا ہے کیونکہ اس ملک کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے بھی مسلم لیگ کی جانب سے پہلے مذہبی کارڈ پھر مسلمانوں کے قومی تشخص کے مفروضے پر دھواں دار خطابات اور بلند و بانگ دعوے کیے گئے اور عوامی جذبات کو بھڑکا یا گیا، اسی مفروضے کی بنیاد پر لاکھوں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

بعد ازاں پاکستان بننے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ تاریخ نے اس مفروضے کو دفن کر دیا ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک ملک پر ایسے سیاستدانوں کا قبضہ ہے جو "نظریات اور اصولوں" سے کلی طور پر عاری ہیں۔ ایسے میں بائیں بازو میں بھی شدید ترین "قیادت کا بحران" دیکھنے میں آیا جس نے پاکستان میں کبھی بھی بائیں بازو کو مستحکم اور مضبوط ہونے کا موقع نہیں دیا ہے۔

دنیا میں شاید ہی ایسا کوئی ملک ہو جس میں کسی سیاستدان نے "عمومیت پسندی" کو اپنا ہتھیار بنا کر استعمال نہ کیا ہو اور پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو اپنی طرف راغب نہ کیا ہو، خود پاکستان میں بھی عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے عوامی جذبات کو بھڑکا کر اپنے مفادات کے حصول کی بھرپور کوشش کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کی حماقتوں سے خود ان کے اپنے پاؤں زخمی ہوئے اور اس طرح ان کا سیاسی وجود "اپاہج" ہو کر رہ گیا ہے، البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تحریکِ انصاف نے "پروپیگنڈا" کا بہترین استعمال کیا اور عوام میں بعض طبقات کو کامیابی سے اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔

بہرحال، پاکستان میں مذہبی طبقات نے بھی "عمومیت پسندی" کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہے، فرقہ ورانہ تعصبات اور توہمات کو خوب ہوا دی گئی ہے۔ ملائیت کی جانب سے افغان سویت روس جنگ میں"جہاد" اور اس کے متعلق مفروضات کو امریکہ کے آشیرباد سے خوب پھلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کیا گیا جس نے نا صرف مذہبی رواداری کی فضا کو مکدر کیا بلکہ بین الاقوامی ہم آہنگی کو بھی ختم کیا ہے۔ اسی طرح افغان، امریکہ جنگ میں بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے رجعت پرستانہ توجیہہ نے مسلم نوجوانوں کو جو "مراکش سے انڈونیشیا" تک میں آباد ہیں بے حد متاثر کیا اور معصوم لوگوں کو جنگ میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ جنگ بھی اس مفروضہ کی رو سے لڑی جا رہی ہے کہ ہم دجالیت اور امریکی سامراج کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان جنگوں سے امریکہ کا "کارپوریٹ سامراج" مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔

عمومیت پسندی کا یہ مرض پاکستانی سماج کی اندرونی تہوں تک میں جاگزیں ہے اور پاکستانی عوام کو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح چاٹتا جا رہا ہے۔ عمومیت پسندی سے جو سب سے بری چیز پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام اپنے "رہنما" کے چناؤ میں بری طرح دھوکا کھا جاتی ہے اور ایسا پاکستانی تاریخ میں بہت بار ہوا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے رہبروں کو چننے میں فریب کا شکار ہوئی ہے اور آج بھی عوام کی اکثریت اسی مرض میں مبتلاء ہے۔

البتہ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سماج میں"عمومیت پسندی" کے کردار کو محدود کیا جاسکتا ہے اور اگر کیا جاسکتا ہے تو کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ عمومیت پسندی کے مرض سے صرف اسی صورت میں جان چھڑائی جا سکتی ہے جب عوام میں اور خاص طور پر طلباء میں"تنقیدی سوچ" اور "سیاسی شعور" کو اجاگر کیا جائے اور صحیح معنوں میں تعلیم و تعلم کا کام کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کسی بھی غلط اور جھوٹے "بیانیہ" کا پرچار کرکے بھولی بھالی عوام کو مشتعل کیا جا سکتا ہے اور اپنے اقتدار کو محفوظ اور مستحکم بنانے کے لئے کوئی بھی شخص انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

تنقیدی سوچ اور سیاسی شعور سے میری کیا مراد ہے؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں جھوٹی تاریخ پڑھانا بند کی جائے اور اصل تاریخ سے واقفیت کو ترجیح دی جائے، تاریخ کی جگہ نظریات نہ پڑھائے جائیں بلکہ "صرف تاریخ" ہی پڑھائی جو کسی بھی قسم کی عقیدت اور تعصب سے پاک ہو۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایسا نصاب بھی تشکیل دیا جائے جس میں نوجوانوں کو سیاسی و معاشی نظاموں اور نظریات کو کھل کر پڑھنے سمجھنے اور ان پر بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسی صورت میں ہی ایسے معاشرے کی تعمیر ہو سکے گی تو "عمومیت پسندی" اور "جذباتیت" کے امراض سے پاک ہوگا اور جہاں صحیح معنوں میں مذہبی و بین الاقوامی رواداری ممکن ہو سکے گی، سماج مجموعی طور پر ترقی کی طرف گامزن ہوگا اور بالآخر جمہوریت پروان چڑھ سکے گی جو اس ملک میں گزشتہ 76 سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔

Check Also

Karen Kuch Aisa Ke Dunya Karna Chahe Kuch Aap Sa

By Asma Hassan