Mashriq e Wusta Mein Atom Bomb Ki Daur
مشرق وسطیٰ میں"ایٹم بم" کی دوڑ
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اس وقت سے کشیدگی کا شکار ہیں جب 79ء میں ایران کا سلامی انقلاب کامیاب ہوا اور آیت اللہ خمینی مقتدر ہوئے۔ خمینی صاحب نے اقتدار میں آتے ہی سعودیوں کو امریکہ کاچاپلوس اور غلام کا خطاب دیدیا جسے عربوں کی اکھڑ شخصیوں نے برداشت نہیں کیا اور وہ ایرانیوں کے خلاف بر سر پیکار ہوگئے۔
ایرانی، سعودی تعلقات میں بعد ازاں کئی اتار چھڑاؤ دیکھنے میں آئے لیکن مشرق وسطیٰ میں ان دو حریفوں کے مابین "سرد جنگ" کی فضا جا بجا برقرار رہی جو ابھی کچھ مہینے قبل چین کی ثالثی میں ہی نرم پڑی تھی۔ یہ معاہدہ اس لیے عمل میں لایا گیا کیونکہ سعودیہ اور ایران دونوں ہی اپنے مابین تعلقات کی کشیدگی کے حوالے سے مایوسی کا شکار تھے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کوششیں جاری تھیں، دونوں کی جانب سے چین کو "ثالث" کے طور پر چنا گیا کیونکہ ایک طرف تو چین کے ایران سے اچھے تعلقات تھے تو دوسری جانب سعودیہ عرب بھی اپنے پرانے اتحادی "امریکہ" سے ہٹ کر چین کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اس معاہدے پر تقریباً دو سال تک "سخت مذاکرات" کا سلسلہ جاری رہا اور ان مذاکرات کے بعد ہی معاہدے پر دستخط عمل میں آئے، اس معاہدے سے ہر گز یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ سب اچھا ہوگیا ہے بلکہ ابھی ان دونوں ملکوں کے درمیان "بد اعتمادی" اور "اختلافات" جاری ہیں جنہوں بدستور حل کرنے کیلئے وقت درکار ہوگا۔ ہر فریق اپنے اپنے مفادات پر کاربند ہے اگرچہ مختلف نظریات کے حامل ہونے کی وجہ سے اور علاقائی سیاست کی وجہ سے تعلقات پھر دشوار ہوسکتے ہیں، بلکہ ہوتے دکھائی بھی دے رہے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران نے بالترتیب 1998 اور 2001 میں ہونے والے تعاون اور سیکورٹی معاہدوں کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ بہرحال، سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کا ایک انٹرویو واشنگٹن سے جاری ہوا ہے، جس میں انہوں نے اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کا اظہار کیا ہے البتہ ایران کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ عمل "فلسطینیوں کو بیچنے اور ان سے غداری" کے مترادف ہے۔ اس پر سعودیہ نے موقف دیا ہے کہ تعلقات کی استواری ہرگز فلسطینیوں کو نظر انداز کرکے نہیں کی جائی گی۔ علاوہ ازیں، محمد بن سلمان نے مزید یہ کہا کہ اگر ایران نیوکلر بم بناتا ہے تو پھر سعودیہ عرب کو بھی ایک نیوکلر بم بنانا ہوگا۔
نیوکلر بم کی یہ دوڑ انہتائی خطر ناک ہے کیونکہ ایک طرف ایران ہے جو "توسیع پسندانہ" سیاست میں یقین رکھتا ہے اور مسلمان ممالک کو "استعمار" کے چنگل سے آزاد کروانے کا مدعی ہے جبکہ دوسری جانب سعودیہ ہے جو اپنے تحفظ و دفاع کیلئے کسی بھی "آخری قدم" اٹھانے سے دریغ گوئی نہیں کرے گا۔ اگر سعودیہ اور ایران کے درمیان نیوکلر دوڑ شروع ہوتی ہے تو اس کے اثرات پورے جنوبی ایشیاء میں دکھائی دیں گے کیونکہ ایک طرف تو پاکستان اور ہندوستان بھی ہیں جن کے ہاں تو 90ء کی دہائی سے یہ دوڑ جاری ہے اور دونوں ممالک نیوکلر بم سے لیس بھی ہیں۔
اگر ایران نیوکلر بم بنالیتا ہے تو سعودیہ عرب کیلئے یہ ناگزیر ہوجائے گا کہ وہ بھی "نیوکلر آپشن" کی طرف پیش رفت کرے۔ ایران اور سعودیہ کی یہ نیوکلر دوڑ خطے میں ایک اور "اسلامی سرد جنگ" کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے جو دوبارہ مسلم ممالک مثلاً پاکستان، افغانستان، بنگلادیش، ایراق و شام میں فرقہ وارانہ اختلافات کو جنم دے سکتی ہے، اور پھر ہم اسی عہد میں دوبارہ داخل ہوجائیں گے جو مذکورہ ممالک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی انتہاپسندی کا "تاریک دور" ماننا جاتا ہے۔
ایران اور سعودیہ میں اس شدید رقابت و دشمنی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں کے مذہبی تصورات ایک دوسرے سے بلکل متضاد ہیں مثلاً سعودیہ "وہابیت" کا پرچارک ہے جبکہ ایران "شیعت" اور "خمینیت" کا پابند ہے۔ یہ دونوں ممالک کی اکثریتی آبادی مسلمان اور دونوں کے قوانین بھی شریعت سے ماخوذ ہیں لیکن پھر بھی محض "مسلک" کے اختلاف کی وجہ سے ان میں عداوت اتنی شدید ہے کہ بات نیوکلر بم تک پہنچ چکی ہے۔
خطے میں امن اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ایران "ایٹم بم" بنانے سے باز رہے اور سعودیہ، ایران دونوں یہ فیصلہ کریں کہ اب وہ ایک دوسرے کے خلاف "پروکسی وار" میں ملوث نہیں ہونگے اور "پر امن بقائے باہمی" کے اصول پر کاربند ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں گے۔ سعودی، ایران پروکسی جنگ کے نتائج اس قدر شدید ہیں کہ ان کے اثرات آج بھی مسلم سماج میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ عالمی برادری اور خاص طور پر اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ ایران اور سعودیہ کے درمیان ایک "ثالث" کا کردا ر دے اور کسی بھی قسم کی جنگ کے پیش خیمے کو قبل از وقت ہی روکنے میں ان دونوں ملکوں کی حکومتوں کی مدد و معانت کرے اور خطے میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھے۔