Begunah Nawaz Sharif, Kya Adliya Zamin Hai?
بے گناہ نواز شریف، کیا عدلیہ ضامن ہے؟
گزشتہ ماہ یعنی 29 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیل منظور کرکے سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے، میاں صاحب کو جرمانے سے بھی بری کردیا۔ اس عدالتی فتح، پر میاں صاحب نے کورٹ سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا "آج میرے ساتھ انصاف ہوا، معاملات کو اللہ پر چھوڑا تھا اور اس نے مجھے سرخرو کیا، بقیہ کیسز میں بھی معاملات اللہ پر چھوڑے ہوئے ہیں۔ اس مالک کا بہت شکر ہے"۔
اس کیس کا پس منظر واضح کرتے ہوئے کہتا چلوں کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں آمدن سے زائد اثاثوں پر 10 سال اور نیب سے تعاون نہ کرنے پر ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے نواز شریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کیا تھا اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تھا البتہ، میاں صاحب نے مذکورہ فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انہیں باعزت بری کردیا تھا۔ جبکہ، 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل، تمام جائیدادیں ضبط کرنے اور جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نواز شریف نے 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور بعد ازاں عدالت عالیہ نے العزیزیہ ریفرنس مشروط طور پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز ریفرنس میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے۔ نواز شریف تقریباً پانچ سال بعد گزشتہ ماہ 22 اکتوبر کو وطن واپس لوٹے اور اب ایک ماہ بعد انہیں ایون فیلڈ ریفرنس سے بری کردیا گیا ہے۔
بہرحال، لندن سے لاہور پہنچتے ہی نواز شریف جو کبھی چور، اورڈاکو، کے القابات سے موسوم کیے جاتے تھے اب دوبارہ صادق و امین بن کر ابھر رہے ہیں۔ عدالتوں کی جانب سے انہیں نا صرف ریلیف دیا جارہا ہے بلکہ کچھ مقدموں سے وہ بری بھی ہو چکے ہیں۔ مذکورہ ایون فیلڈ ریفرنس کیس ایک تازہ مثال ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ عمران خان جو کبھی"آنکھ کا تارہ" تھے اب عدالتی ہیچ پیچ کی گہرائیوں میں پھنستے جارہے ہیں جبکہ پاکستان کے عدالتی نظام سے متنفر نواز شریف "سروخرو" ہوکر فتح یاب ہورہے ہیں؟ ویسے تو اس سوال کا جواب واضح ہے کہ میاں صاحب مقتدرہ سے ہاتھ ملا چکے ہیں اور مقتدرہ بھی بڑھ چڑھ کر نواز شریف کی ہدیٰ خواں بنی ہوئی ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگلی حکومت میاں صاحب کی ہی ہے اور عمران خان محض اب تاریخی غبار بننے کی جانب گامزن ہیں۔ جیسے کبھی ملک کے "عوامی سیاستدان" ذولفقار علی بھٹو اپنی ناگہانی پھانسی کے بعدصرف تاریخ کے اوراق میں یا اپنے کارکنوں کے دلوں میں ہی "زندہ" رہ گئے ہیں۔
ملک کے ممتاز تجزیہ کار اب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ میاں صاحب چوتھی بار بھی ملک کے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں اور یہ مینار تحریک انصاف کی قبر پر تعمیر ہوگا جبکہ کچھ "حادثاتی" صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی رائے اس معاملے میں مختلف ہے۔ البتہ، سہیل وڑائچ صاحب کا کہنا ذرا منفردتھا، اپنے کالم "مصالحت یا محاذ آرائی: بہتر کیا؟" میں لکھتے ہیں کہ"میاں صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد کا جو بھی نقشہ بنا رہے ہیں اس میں صلح جوئی اور مفاہمت کو اہم ترین نکتہ ہونا چاہئے میری پہلے بھی رائے تھی اور آج بھی ہے کہ جس طرح میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کو سمجھایا تھا وہ موجودہ مقتدرہ کو بھی سمجھائیں کہ سیاسی بحران اور معاشی بحران تب ہی حل ہونگے جب مفاہمت کا دور چلے گا"۔
ملک کی موجودہ صورتحال کی روشنی میں یہی سوالات اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پاکستان کے چوتھی بار وزیر اعظم بن کر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپناکر خود کوایک مدبر سیاستدان کے روپ میں عوامی حلقوں میں روشناس ہونگے یا پھر انقام کی سیاست میں یقین رکھنے والا ایک تفرقہ باز سیاستدان؟ اور کیا نواز شریف واقعی بے گناہ اور بے خطا ہیں اور کیا عدلیہ کو اس بات کی ضامن ہے؟ ان سوالات کا کوئی حتمی جواب دینا قبل از وقت ہے البتہ، میاں صاحب اور نون لیگ کے سینئر لیڈران کی جانب سے یہی بیانیہ اختیار کیا جارہا ہے کہ اب نون لیگ تخریب یا انتقام کی نہیں بلکہ تعمیر کی سیاست پر چلے گی، جیسے وہ ہمیشہ چلتی آئی ہے۔ لیکن کیا وقعی نون لیگ اسی بیانیہ پر چلے گی؟ اور کیا واقعی میاں صاحب بے قصور ہیں اور وہ اس وقت کی مقتدرہ کے حریف تھے صرف اسی وجہ سے انہیں نااہل، کیا گیا تھا؟ کیا کوئی شخص ضمانت دے سکتا ہے؟ میرے نزیک تو قطعاً نہیں۔
بہرحال، حالات جو بھی موڑ لیں یہ امر واضح ہے کہ عمران خان کا مستقبل تاریک راہوں کا مسافر ہی رہ گیا ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی سیاست اور مقتدرہ کے حوالے سے کچھ بھی صریح فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہاں مجھے اپنے شعر کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے کہ "کہانیاں بدل جاتی ہیں وقت بدلنے سے پہلے" بلکل اسی مصرعہ کے مصداق پاکستان کے سیاسی سماج کی صورتحال ہے یعنی اس ملک میں کبھی یہ علم نہیں ہوسکتا ہے کہ کب کس کے کس سے تعلقات بگڑ جائیں گے اور اسی پیچ و خم میں بعضوں کے تخت الٹ جاتے ہیں۔ جبکہ، جو کل تک دس پندرہ سال حکومت کرنے کے مدعی تھے محض چار سال میں اقتدار سے بیدخل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ صورتحال کے حوالے سے بھی کچھ صریحاً نہیں کہا جاسکتا ہے۔ البتہ، نواز شریف تو "بے گناہ و بے خطا" کی صورت میں ابھر رہے ہیں لیکن عمران خان کے حوالے سے میرا یہ گمان ہے کہ وہ شاید زندان میں غالب کا یہی شعر دہراتے ہوں گے کہ
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا