Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Raiyd Khan
  4. Bayanion Ka Tasadum Aur Nawaz Sharif Ki Watan Wapsi

Bayanion Ka Tasadum Aur Nawaz Sharif Ki Watan Wapsi

بیانیوں کا تصادم اور نواز شریف کی وطن واپسی

بیانیے تشکیل دیے جارہے ہیں، سیاسی مفروضے تراشے جارہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) اپنے قائد میاں محمد نواز شریف (جو ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں شاید اب چوتھی بار بھی وزیر اعظم بننے کے خوہاں ہیں) کو پاکستان کو درپیش بحرانوں کا واحد حل اور قومی مسائل کا "تسلی بخش" علاج قرار دے رہے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو میاں محمد نواز شریف کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ وہ ملک کے تین بار "منتخب" وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن ایک بار بھی وہ اپنی "پانچ سالہ آئینی مدت" پوری نہ کرسکے۔

پہلی بار انہیں 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے برطرف کیا گیا تھا تو دوسری بار وہ مشرف کے مارشل لاء کی نذر ہوئے۔ بعدازاں، تیسری بار 2018ء میں انہیں ایک "نیم مارشل لاء"کے ذریعے اور"عدالتی اسٹیبلشمنٹ" کی مدد سے اس بات پر "نااہل" قرار دے دیاگیا کہ وہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لیتے۔ الغرض، ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف لاہور میں ہیں، لیگیوں کے مطابق مینارِ پاکستان پر ایک "تاریخ ساز" جلسے سے خطاب کرچکے ہیں اور اپنی جماعت کی تعمیر نو میں مشغول ہیں جو 2018ء کے بعد عمران خان کے پروپیگنڈے کی زد میں آکر مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔

اب یہ مکافاتِ عمل ہے یا حسنِ اتفاق کہ جب 2017ء میں میاں صاحب کو ناہل قرار دیا گیا اور نہیں جیل منتقل کردیا گیا تو پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کی تیز ترین اڑان بھر رہی تھی لیکن آج وہی پی ٹی آئی ریاستی"غضب" کا شکار ہے اور انکے محبوب لیڈر جیل میں قید ہیں جبکہ نون لیگ عوامی مقبولیت کی دعویٰ دار بن کر ابھر رہی ہے۔

بہرحال، مینارِ پاکستان پر نواز شریف کے جلسے کو سیاسی مبصرین کی جانب سے مسلم لیگ نون کا "دوسرا جنم" قرار دیا جارہا ہے البتہ پی ٹی آئی حلقے کے صحافیوں اور "دانشوروں" کی رائے اس معاملے میں مختلف مگر معمول کے مطابق ہے۔ ایسی صورتحال میں کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں امڈ آتے ہیں مثلاً کیا نواز شریف پاکستان کی "آخری امید کی کرن" ہیں؟ اور کیا واقعی نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ نون کا دوبارہ جنم ہوسکے گا؟ یہ وہ کچھ سوالات ہیں جو پاکستان کے موجودہ منظر نامے کے پس منظر میں دہرائے جارہے ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔

سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی، مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی "ڈیل" کا شاخسانہ ہے اور نا صرف گزشتہ دنوں بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی نون لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی "غیر اعلانیہ" حمایت حاصل تھی اور رہے گی۔

اس بات کا اندازہ کچھ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو مینار پاکستان پرقوم سے خطاب کرنے کی مکمل آزادی دی گئی لیکن اسی دوران جب پی ٹی آئی کارکنان نے لاہور میں ایک "پارٹی کنونشن" منعقد کیا تو اس پر پولیس نے دھاوا بول کر تقریباً 55 افراد کو زیر حراست لے لیا۔ اس خبر سے ناصرف اسٹیبلشمنٹ کی نون لیگ سے کچھ حد تک قربت جھلکتی ہے بلکہ نگران حکومت کی "غیر جانبداری" کی بھی کلی بہر طور کھل جاتی ہے۔ تحریک انصاف تو کجا پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کے درمیان "قربت" کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے بلکہ اسے کچھ حلقوں کی جانب سے تو پاکستان میں"جمہوریت کیلئے خطرہ" تک قرار دیا جاچکا ہے۔

البتہ نون لیگ کی جانب سے اس تاثر کی بارہا دفعہ نفی کی جاچکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے یہی بیانات سامنے آرہے ہیں کہ "ہم ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر آج بھی قائم ہیں"۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس مبینہ رویہ اور ملکی سیاسی اتار چڑھاؤ کی مناسبت سے ایک مزید سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات میں"لیول پلیئنگ فیلڈ" مل پائے گی یا نہیں؟ موجودہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کا لیول پلیئنگ فیلڈ ملنا تو درکنار انہیں باضابطہ "سائڈ لائن" کیا جارہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں نہیں اتر سکے گی اور اگر اترے گی بھی تو انہیں اپنی"روایتی قیادت" میسر نہیں ہوگی۔

بہرکیف، موضوع کی طرف واپس بڑھتے ہوئے پہلے اس سوال کا جواب دینا لازم ہے کہ کیا نواز شریف پاکستان کے آخری نجات دہندہ ہیں؟ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواز دور حکومت کو کچھ حد تک پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے خوش آئند گردانا جاسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور بحرانوں سے جکڑی معیشت اور سیاست نواز حکومت کا بھی ناقابل فراموش خاصہ رہی، جسے کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ نواز شریف مقتدر ہونے کے بعد ملک کے تمام بحرانوں کا حل "دریافت" کرلیں گے اور انکے پاس قوم کو لپٹے ہر مسئلہ اور مرض کا علاج ہے تو بہرحال میں اس بیانیہ کا خریدار نہیں اور نہ ہی میرے نذدیک کسی بھی شخص کے پاس کوئی ایسی"جادوئی چھڑی" ہے جس کے ذریعے ملک کو درپیش مسائل کا فوراً حل کیا جاسکتا ہے۔

اب جہاں تک تعلق اس دوسرے سوال کا ہے کہ آیا نواز شریف مسلم لیگ نون کو دوبارہ زندہ کرسکیں گے؟ تو اسکا بھی سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ خوان اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا کہ جب تک مسلم لیگ نون، عمران خان اور انکی جماعت کے تشکیل کردہ بیانیہ کو مفلوج کرکے عوام کے اندر پھر سے "ووٹ کو عزت دو" کے بیانیہ کی ترویج شروع نہ کردے اور میاں صاحب دوبارہ اپنے آپ کو ایک "عوامی لیڈر" منوا نہ لیں (جو تصویر انصافیوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے دھندلی سی پڑ گئی تھی)۔ اگر نواز شریف ملکی سیاسی منظرنامہ میں اپنی سیاسی ساخت کو دوبارہ بحال کرلیتے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام اور خاص طو رپر نوجوان نسل (جو پاکستان کی کل آبادی کے 60 فیصد ہیں) کو اپنی طرف مائل کرسکیں گے، اور اس بیانیہ کا رد کرینگے کہ "عمران خان ہی پاکستان کی آخری امید ہیں" جو سوشل میڈیا پر آج بھی زور و شور سے پھیلایا اور قبول کیاجاتا ہے۔

علاوہ ازیں، اکیسیویں صدی انفارمیشن کی صدی گردانی جاتی ہے کیونکہ 2000-2010ء کی دہائی میں انٹرنیت سے رونما ہونے والے "انقلاب" نے دنیا بھر میں ایسے لیڈروں کو جنم دیا ہے جنہیں اگر "مینوفیکچرڈ" کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ان رہنماؤں میں ٹرمپ، مودی اور عمران خان سرِ فہرست ہیں۔ ڈس انفارمیشن کے تیز تر پھیلاؤ نے دنیا بھر کی عوام کو "عمومیت پسندی" کے مرض میں مبتلاء کردیا ہے اور دنیا کی اکثریتی نوجوان نسل "سازشی مفروضوں" پر تاریخی حقائق سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

اسی صورتحال کا ہمیں پاکستان میں بھی سامنا ہے اور لوگ اپنے بیانیہ کے خلاف کسی بھی قسم کے دلائل اور حقائق سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر نوجوانوں کے جھکاؤ کو نون لیگ یا بھر کسی دوسرے"مینوفیکچرڈ لیڈر" کی طرف مائل کردیا جائے تو اس سے عمران خان کی مقبولیت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے بلکل ویسے ہی جیسے موصوف کی وجہ سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو عوام کی غیر دلچسپی اور بد اعتمادی کا خطرہ ہوا تھا۔

اگر نواز شریف اور انکی جماعت مسلم لیگ (ن) ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کہنا قبل از وقت نہ ہوگا کہ عمران خان کا پاکستانی سیاست میں وجود "دفن"ہو جائے گا یا کم از کم کمزور تو ضرور پڑ جائے گا۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ نوجوانوں کے اندر ملک کی مروجہ "خاندانی و موروثی سیاست" کے خلاف نفرت اور غصہ تیزی سے بڑھ رہاہے، ایسے میں پالیٹیکل ڈائنیٹس کا دیر تک پاکستانی سیاست میں قدم جمائے رکھنا بہت مشکل ثابت ہوگا اور اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے اپنی ساخت برقرار رکھنے کیلئے جلدی ہی کسی نئے "بیانیہ" اور "عوامی لیڈر" کی ضرورت پیش ہوگی۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani