Abul Ala Al Maarri (1)
ابوالعلاء معرّی (1)
ہر وہ شخص جو تفکر اور تدبر کا مجرم ہے، فلسفہ اس کے لیے بہترین سزا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو عربی زبان و ادب سے خاص شغف ہے تو یہ نا ممکنات میں سے ہوگا کہ اس نے عہد بنو عباس کے عظیم "نابینا شاعر" ابو العلاء معرّی کا ذکر کہیں نہ کہیں پڑھا یا سنا نہ ہو۔
معرّی کا پورا نام احمد بن عبد اللہ بن سلیمان التنوخی ہے (یہ نسبت تنوخ نامی یمنی قبیلہ کی طرف ہے)۔ البتہ، قدرت کی یہ ستم ظریفیوں میں سے ہے کہ بچپن میں ہی معرّی اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا اور اس نے تمام عمر اسی اندھے پن میں گزاری لیکن پھر بھی اس محرومی کے باوجود وہ علم کی تحصیل میں"اوجِ کمال" تک پہنچا۔ عرب کا یہ عظیم شاعر بینائی سے کیسے محروم ہوا؟ اس حوالے سے احمد حسن الزیات اپنی کتاب میں"تاریخ الادب العربی" میں لکھتے ہیں:
"ابھی چار برس کا ہی تھا کہ چیچک کا حملہ ہوا جس سے بائیں آنکھ جاتی رہی اور داھنی آنکھ میں بھی جالا پڑ گیا، اور اندھے پن کی حالت میں بڑھا۔ رنگوں میں سے وہ صرف سرخ رنگ کو پہنچانتا تھا۔ بیماری کی حالت میں اسے سرخ لباس پہنایا گیا تھا۔ چناچہ یہی وہ رنگ ہے جسے اس نے سب سے پہلے پہچانا اور سب سے آخرمیں دیکھا"۔
معرّی جب شعور کی عمر کو پہنچا تو اسکے باپ نے اسے تعلیم دی اور بعدازاں وہ "معرہ" جہاں وہ پیدا ہوا تھا کہ جید علماء سے استفاد علم کرتا رہا۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ مزید تلاش علم کے لیے حلب چلا گیا۔ حلب میں ادب اور لسانیات میں اساتذہ سے مستفید ہوتا رہا اور اس نے شہر کے کتب خانوں کی تمام کتابیں سن سن کر از بر لیں۔ حتیٰ کہ 392ھ میں اس نے انطاکیہ اور طرابلس کاسفر کیا۔
اس سفر میں اسکے ساتھ ایک عجب واقعہ رونما ہوا جس نے اس کے افکار و نظریات کو ایک نئے ڈھنگ میں سمو دیا کہ جب وہ لاذقیہ سے گزرا تو یہاں وہ ایک دیر میں اتر پڑا جہاں اسے ایک راہب ملا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اگلے زمانوں کے علوم کی باتیں کرتا تھا۔ معرّی نے اس راہب سے فلسفہ کے حوالے سے کچھ ایسے اقوال سنے جس نے اسے مذہب اور مذہبی تصورات کے بارے میں شک میں مبتلاء کردیا اور وہ اپنے مذہبی تصورات کے دفاع میں دلیلیں نہ ڈھونڈ سکا۔ شاید اسی وجہ سے وہ مذاہب سے منتفر رہا اور شک کرنے اور حقیقت کی تلاس کا جذبہ اس کے اندر سرایت کرگیا۔
طرابلس اور انطاکیہ کے دورے کے بعد جہاں اس نے بیشمار کتب خانوں سے اکتساب کیا۔ بیس برس کی عمر میں وہ اپنے آبائی شہر معرہ واپس آگیا اور طلباء کو عربی زبان و ادب کی تعلیم دینے لگا جبکہ خود بھی لسانی تراکیب اور زبان کی باریکیوں کے متعلق بحث و تحقیق میں مشغول رہا، اسی اثناء میں وہ شعر کہنے کی طرف راغب ہوا۔ البتہ، احمد حسن الزیات کا کہنا ہے کہ گیارہ برس کی عمر میں اس نے اشعار کہنا شروع کردیے تھے۔
بہرحال، پینتیس برس کی عمر میں اس نے اپنے ملک یعنی شام کے دوروں کو مکمل کرکے "بغداد" جانے کاقصد کیا۔ معری نے بغداد جانے کا ارادہ کیوں باندھا اس حوالے سے اہل الرائے میں کئی خیال آرائیاں ہیں لیکن وہ خود اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ "بغداد کے کتب خانوں کی کشش مجھے وہاں کھینچ کر لے گئی"۔ یہاں اس نے غالباً ڈھائی سال قیام کیا اور بغداد کے اہل علم سے کشف فیض کرتا رہا اور اپنے طلباء جو اسکی بغداد آمد کی خبر سنتے ہی ارد گرد منڈلانا شروع کرچکے تھے، کے لیے علم و فکر کا ایک درخشاں باغ ٹہرا۔
وہ تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھاتا رہا جبکہ خود بھی فلسفہ کی تشنگی اسے پے چین کیے رکھی اور بغداد کے وادی نما کتب خانوں میں وہ مارامارا پھرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یونانی حکمت اور ہندی فلسفہ سیکھنا چاہتا تھا۔ بغداد میں اس کا تعلق آزاد فلسفیوں کے ایک گروہ سے پیدا ہوگیا جو ہر جمعہ اپنے ساتھی ابو احمد عبد السلام بن حسن بصری (یہ وہ مشہور حسنن بصری نہیں ہیں) کے گھر پر مجلس منعقد کیا کرتے تھے۔ انہی مجالس میں فلسفیوں کی صحبت سے اسکے افکار و خیالات پر کافی گھیرے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے لیکن یہ رشتہ زیادہ دن نہ قائم رہ سکا اور جلد ہی ختم ہوگیا۔ معری نے بغداد کی زمین زرخیز اور ماحول اپنے لیے موزوں پایا۔ البتہ، محمد کاظم جو کتاب"عربی ادب کی تاریخ" کے مصنف ہیں لکھتے ہیں:
"اس کے بعض مکاتیب اور اشعار سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ بغداد کا قیام اسے پسند تھا لیکن ایک تو اس کے پاس پیسہ ختم ہوچکا تھا دوسرے وہ دارالسلطنت کے بعض خود بیں اور خوشامدی لوگوں کے رویے سے مایوس ہوگیا تھا۔ چناچہ جونہی اسے اپنی والدہ کی علالت کی خبر ملی وہ بغداد سے چل پڑا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ اس کی ماں کا انتقال ہوگیا"۔
البتہ، معری کی ماں کی خبر کے متعلق احمد حسن الزیات کا کہنا ذرا مختلف ہے وہ لکھتے ہیں:
"ابھی بغدادیوں سے وہ پوری طرح ربط و ضبط استوار نہ کرسکا تھا کہ وطن سے اچانک اسے اس کی ماں کے مرنے کی اطلاع پہنچی۔ باپ تو اس کا پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔ اس درد ناک خبر سے اسے بڑا صدمہ پہنچا اور وہ بہت رنجیدہ رہنے لگا"۔
بہرحال، حقیقت جو بھی ہو کہ اسے بیماری کی خبر ملی یا موت کی، غیر اہم ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اپنی ماں کے انتقال کے بعد وہ مزید غم و الم کا شکار رہنے لگا اور اس پر مزید یہ کہ اپنے آبائی وطن "معرہ" پہنچ کر وہ حکام اور عوام کے بعض طبقات کی جانب سے سخت ایذا رسانی کا شکاررہا۔ اس سخت رویے کی وجہ لوگوں کا معری کے عقائد کے حوالے سے شک تھا اور وہ ہمیشہ حتیٰ کہ اسکی موت تک اسکے عقائد اور ایمان کے شاکی رہے۔
کیونکہ اس کو ہمدرد و غم خوار دوستوں کا ساتھ کبھی نہ نصیب ہوسکا چناچہ اس نے مجبوری کے عالم میں یہ فتویٰ صادر کیا دنیا محض آلام اور صرف آلام کا ہی ٹھکانہ ہے اور اسی مایوسی میں اس نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کا راستہ اپنایا۔
اس کے علاوہ اس نے خود پر مزید پابندیاں بھی نافذ کرلیں جیسے اس نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا، گوشت و انڈے اور دودھ کا استعمال ترک کردیا، ترکاری کے لیے وہ مسور کی دال اور میٹھے میں کھجور کو منتخب کر لیا، شادی بیاہ کے معاملات کو اپنی زندگی سے بلکل خارج کردیا اور ماسوائے طالب علموں کے ہر شخص سے ملنا بند کردیا۔ خرچ کے لیے وہ تیس دینار سالانہ پر اکتفاء کرتا جو اسکے لیے وقف کیے گئے تھے۔ پہناوے میں وہ کھدر کی پوشاک استعمال کرتا اور سونے بیٹھنے کے لیے چٹائی بچھاتا۔ اسی غمگینی کے عالم میں اس نے شاعری میں تمام روایتی موضوعات مثلاً مدح، ہجو اور مرثیہ وغیرہ کو خیر باد کہہ کر ایک نئی جہت میں اپنے نظریات اور افکار کو بیان کرنا شروع کیا۔
اس نے اپنی نظموں میں ایک یہ پابندی عائد کی کہ قافیے میں بجائے ایک کے دو حرفِ روی ہوں مثلاً ناہب، راہب، مذاہب اور غیاہب۔ اس نظم کو اس نے "لزوم مالا یلزم" کہہ کر پکارا یعنی ایک ایسی بات کی پابندی جو لازم نہیں ہے۔ گویا ان نظموں کا دیوان اختصار کے ساتھ "لزومیات" کہلایا گیا۔ 400ھ میں گوشہ نشینی اور ترک دنیا کی دُھن میں اس نے اپنے آپ کو "رھین المحسبین" یعنی "دو قیدوں میں محبوس" کا لقب دیا۔ اس لقب کی وجہ یہ بنی کہ اول تو وہ نابینا تھا اور دوسری یہ ہے کہ وہ گوشہ نشینی کی تنہائی اختیار کرچکا تھا۔
انسان اور عالمِ انسانیت سے وہ اس قدر بد ظن تھا کہ اپنی اولاد کو انسانوں کی بے وفائی اور ستم گری سے محفوظ رکھنے کے لیے اور زندگی کی شقاوتوں اور بد مزگیوں سے بچانے کے لیے اس نے یہ حل دریافت، کیا کہ شادی ہی نہ کی جائے۔
چناچہ 449ھ میں اپنی موت تک اس نے شادی نہیں کی اور یوں ہی مجرد زندگی گزارتا رہا۔ یاقوت الحموی کا بیان ہے کہ معری جب فوت ہوا ہے تو اس کی قبر پر چوراسی شعراء نے آکر مرثیے پڑھے۔ ایک دوسری مگر دیومالائی روایت سے پتا چلتا ہے کہ اس کی قبر پر ایک ہی ہفتے میں دو سو مرتبہ ختمِ قرآن کیا۔ نیز معری نے وصیت کی کہ اس کی قبر پر اس کا یہ شعر لکھا جائے:
ھذا جناہ ابی علیّ وما جَنیتُ علی احد
ترجمہ: میرے باپ نے مجھ پر ظلم کیا (کہ مجھے اس دنیا میں لایا) مگر میں نے یہ ظلم کسی پر نہیں کیا۔