Chief Justice Ka Inqilabi Qadam
چیف جسٹس کا انقلابی قدم
پی ڈی ایم نے اپنی پچھلی حکومت میں جسٹس عمر عطا بندیال کے ہاتھ باندھنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے سوموٹو کے اختیار اور نظر ثانی کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے چیف جسٹس کے اپنی مرضی سے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پاس کیا گیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ایک پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بنی جس میں چیف جسٹس کے علاوہ دو سینیئر ججز کو شامل کیا گیا جو سوموٹو اور نظر ثانی پر چیف جسٹس کے ساتھ مل کر کیس لگانے کی منظوری اور بینچ بنانے میں معاونت کرتے تھے اور یوں دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ ہوتا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے بطور چیف جسٹس، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناہی جاری کیا اور کام کرتے رہے لیکن جب وہ ریٹائرڈ ہو رہے تھے تو انہوں نے اس پر فیصلہ دیتے ہوئے اس ایکٹ کو منظور کر لیا اور یوں جسٹس عمر عطا بندیال کو پھنساتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قاضی فائض عیسی کے گلے پڑ گیا۔
قاضی فائز عیسی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے لیے آیات کے حوالے دیا کرتا تھا کہ کسی ایک شخص کے پاس اختیارات نہیں ہونے چاہیے لہذا قاضی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بننے سے قبل بننے والے بینچوں میں بیٹھنے سے بھی انکار کیا لیکن چیف جسٹس بنا تو یہی کمیٹی اس کے گلے پڑ گئی اور اسے مجبوراً اسے چلانا پڑا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر ججز کے استعفے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل کرنا پڑا جو سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز بن چکے تھے۔ اس کمیٹی کی وجہ سے قاضی فائز عیسیٰ اور اس کے ہینڈلرز کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے ماضی کے کچھ فیصلوں کو ریورس کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا مگر اس کمیٹی کی وجہ سے نہ ہو پائے۔
جب آئینی ترامیم کی کوششیں شروع ہوئیں تو حکومت کو نمبر گیم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قاضی فائز عیسی نے حکومت کا راستہ آسان بنانے کے لیے اپنے تہی انہیں پہلے سے ہی دو تہائی اکثریت پوری کرکے دے دی تھی کیونکہ قاضی اور الیکشن کمیشن نے پہلے فارم 47 کے ذریعے حکومتی اتحاد کو محفوظ بنایا، پھر قاضی نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی کے نام پر اپنی مرضی سے ہزاروں ووٹوں کو مسترد کرکے حکومت کو یہ سیٹیں دیں اور پھر جو سیٹیں کم رہ گئی تھیں قاضی نے تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں حکومت کو دے کر دو تہائی اکثریت پوری کروائی۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر تحریک انصاف کی درخواست سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کے سامنے گئی تو آٹھ اکثریتی ججز کی وجہ سے معاملہ قاضی اور اس کے ہینڈلرز کے ہاتھ سے نکل گیا اور یوں ان کی دو تہائی اکثریت کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ سپریم کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے قاضی نے خود بھی خط لکھا کیونکہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل جائیں گی تو یہ حکومتی اتحاد کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گی۔
حکومتی اتحاد نے آئینی ترامیم کے لیے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو خریدنے اور دھمکانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے اپنے فیصلے کی وضاحت میں یہ بھی کہا کہ جن 41 اراکین کو آزاد قرار دیا گیا ہے وہ بھی تحریک انصاف کے ہی شمار ہوں گے جس کے بعد آئینی ترمیم کے لیے نمبر گیم مشکلات کا شکار ہوگئیں۔
حکومتی اتحاد کو مسئلہ یہ تھا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 63 اے کا فیصلہ جاری کیا تھا جس کی وجہ سے لوٹوں کے ووٹ شمار نہیں ہوتے تھے اور قاضی کو اس فیصلے کو بدلنا تھا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اس نظر ثانی کو نہیں لگانے دے رہی تھی جس پر حکومت نے عجیب انداز سے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا۔
متنازعہ وزیر اعظم نے اپنی متنازعہ کابینہ سے منظوری دی اور متنازعہ صدر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کے تحت صدارتی آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت اب کمیٹی میں دو سینئر ججز کی بجائے ایک سینیئر جج ہوگا جبکہ دوسرا جج چیف جسٹس خود چنے گا اور یوں قاضی فائز عیسی نے کمیٹی سے جسٹس منیب کو نکال دیا اور ایک جونیئر جج جسٹس امین الدین کو شامل کرکے کمیٹی میں اکثریت بنائی اور نظر ثانی لگا کر 63 اے کے فیصلے کو ریورس کر دیا۔
قاضی کے اسی فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے اغوا اور جبر و تشدد کا سلسلہ شروع ہوا اور اسی فیصلے کی وجہ سے انسانی منڈیاں لگی اور لوٹوں کو ساتھ ملا کر آئینی ترامیم ممکن ہو پائیں۔
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی نے آتے ساتھ ہی ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے صدارتی ارڈیننس کو ریورس کر دیا ہے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں دو سینیئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کر لیا ہے۔
نئے چیف جسٹس نے کل فل کورٹ اجلاس بھی بلایا ہے اور یقیناً اس میں بھی صدارتی آرڈیننس اڑ جائے گا جس کے بعد اس آرڈیننس کے تحت قاضی فائز عیسیٰ کا اپنی مرضی سے بنایا گیا بینچ اور 63 اے کا فیصلہ بھی ریورس ہونا چاہیے۔ ایسا ہوتا ہے تو آئینی ترامیم میں لوٹوں کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے اور آئینی ترامیم ہی ریورس ہو جائیں گی جس کے بعد سینیئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن سکتے ہیں۔
موجودہ آئینی ترامیم کے تحت چیف جسٹس ایک کاغذی عہدہ بن کر رہ گیا ہے جبکہ حقیقی اختیارات سپریم کورٹ کے متوازی ایک آئینی بینچ کے سربراہ کے پاس ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو اس وقت چیف جسٹس بننے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت سے تین سال قبل ہی ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ اگر وہ یہ آئینی ترامیم ریورس کر پاتے ہیں تو جسٹس منیب اختر کے بعد چیف جسٹس بنیں گے۔
سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس صرف آئینی بینچ کا ڈنک ہی نکال دے تو آئینی ترامیم غیر موثر ہو جائیں گی کیونکہ یہ دنیا کی تاریخ کا پہلا آئینی بینچ ہے جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر ججز نہیں ہوں گے اور نہ ہی چیف جسٹس اور سینیئر ججز اس میں ججز کی تقرری کریں گے بلکہ اس کا سربراہ حکومت کی مرضی سے بنے گا یہاں تک کہ اس کے اراکین بھی حکومت کی مرضی سے بنیں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس سوموٹو کا اختیار بھی نہیں ہوگا جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا اور یوں یہ سپریم کورٹ کے متوازی ایک نئی عدالت ہی ہے جو سپریم کورٹ کے معاملات میں براہ راست مداخلت کے مترادف ہے اور آئین کی بنیادی روح کے ہی خلاف ہے۔
سپریم کورٹ کو اگر عدلیہ کی آزادی بحال کرنی ہے تو کم از کم آئینی بینچ کی ترمیم کو آرٹیکل 175 کے کی شق 3 سے متصادم قرار دے کر غیر آئینی قرار دے کر ریورس کرنا ہوگا۔