26Wi Aeeni Tarmeem Aur Adliya Ka Mustaqbil
26ویں آئینی ترمیم اور عدلیہ کا مستقبل
دو تہائی اکثریت سے یکسر محروم حکومتی بندوبست نے فارم 47 کی سیٹوں، مخصوص نشستون کی غیر منصفانہ کوششوں سے ہوئے سینٹ الیکشن، خیبرپختونخوا کی عدم موجودگی میں ادھوری سینٹ اور بعد ازاں 63 اے کے فیصلے کو ریورس کروا کر جبر، دھونس، دھاندلی اور انسانی منڈیاں لگا کر نصف رات کو چھبیسویں آئینی ترمیم کی بنیاد رکھی جس نے عدلیہ کے پر کاٹ دیے ہیں۔ افسوس ہے کہ مقتدر قوتوں کے اس گھناونے کھیل میں بظاہر جمہوری پارٹیاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر استعمال ہوئی ہیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بھی جیوڈیشل کمیشن بنا کر اس میں پارلیمان کو حاوی کیا تھا۔ یوں سپریم کورٹ پارلیمان کے انڈر آ چکی تھی جس پہ عمران خان نے عدلیہ اور وکلاء کا ساتھ دیتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔
انیسویں ترمیم کے ذریعے اس اعتراض کو بعد ازاں دور کیا گیا اور جیوڈیشل کمیشن میں ججز کی تعداد بڑھا کر عدلیہ کو حاوی کیا گیا۔
اس بار تو ججز کی تقرری، چیف جسٹس کی تقرری، یہاں تک کہ آئینی بینچ کے ججز کی تقرری تک پارلیمان کے زیر انتظام آ چکی ہے اور یوں عدلیہ براہ راست پارلیمان کے انڈر آ چکی ہے جو آئین پاکستان کی بنیادی روح بمطابق آرٹیکل 175 کی شق 3 سے متصادم ہے جہاں عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کی سفارشات تھیں۔
آسان الفاظ میں سمجھیں تو اب ججز کو چیف جسٹس کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سیاسی جماعتوں سے جوڑ توڑ کرنا پڑے گی جس سے نظامِ عدل تباہ ہوگا۔
چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کاغذی رہ جائے گی۔ آئینی بینچ کا سربراہ چیف جسٹس سے زیادہ اختیارات کا حامل ہوگا مثلاً سوموٹو کا اختیار بھی چیف جسٹس سے چھین کر آئینی بینچ کو دے دیا گیا ہے۔ سب سے بڑا غضب یہ ہے کہ آئینی بینچ کا سربراہ کوئی بھی جج ہو سکتا ہے یوں اس کے ذریعے حکومت پوری عدلیہ میں سے کسی امین الدین اور قاضی جیسوں کو چن کر پورا نظام کنٹرول کر سکتی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں موجود آئینی بینچ بنانے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ یوں آئینی بینچ کی فارمیشن اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ ایک الگ آئینی عدالت ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہائیکورٹس کو مکمل طور پہ قابو کیا گیا ہے۔ اگر ہائیکورٹ کا کوئی جج پسند نہیں ہے تو سپریم کورٹ کے ذریعے مداخلت کرتے ہوئے کیس اس سے چھین کر خود ہی دوسری ہائیکورٹ میں شفٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے مدعی کی درخواست پہ یہ فیصلہ خود ہائیکورٹ کرتی تھی کہ کیس دوسری ہائیکورٹ میں شفٹ کرنا ہے یا نہیں۔
ہائیکورٹس کے اندر بھی آئینی بینچز بنا کر ان کو بھی کاغذی کورٹس بنا دیا گیا ہے اور یوں پورا عدالتی نظام کنٹرول کیا گیا ہے۔
سپریم جیوڈیشل کونسل کی فارمیشن بھی بدل کر قومی اسمبلی اور سینٹ کو شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں سپریم جیوڈیشل کونسل میں بھی حکومتی بندوبست کو واضح اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچویں سینیئر ججز بھی ایک جانب ہو جائیں تو حکومت کے پاس اکثریت رہے گی یعنی عدلیہ کو مفلوج کیا گیا ہے اور ججز کے خلاف ریفرنس جیسے مسائل پہ کونسل پہ قبضہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مفلوج ہونے کے بعد اب آئینی پٹیشن صرف آئینی بینچز میں جائیں گی جہاں حکومت کی مرضی کے ججز ہوں گے جنھیں سپریم کورٹ نہیں بلکہ جیوڈیشل کمیشن چنے گا۔
چیف جسٹس کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو تین ناموں میں سے چننے کا اختیار سب سے عجیب ہے جہاں انگوٹھا چھاپ اور کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بھی عدلیہ کا سب سے اہم عہدہ آ چکا ہے جس کے بعد منظوری کے لیے وزیر اعظم کا اختیار رکھا گیا ہے۔
عدلیہ کو مکمل طور پر حکومتی ایما کے طابع کرنے کی اس کوشش پہ انٹرنیشنل کورٹس آف جسٹس نے بھی پاکستان کی چھبیسویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی سازش قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
امید کیا جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ اس آئینی ترمیم کو آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہونے کی وجہ سے ریورس کر دے گی۔ خصوصاً آئینی بینچ کی تشکیل کو ہر صورت ریورس ہونا ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں آئینی بینچ کا سربراہ چیف جسٹس ہوتا ہے اور ارکان سینیئر ججز ہوتے ہیں۔ یہاں ایک الگ عدالت گھڑ لی گئی ہے اور سپریم کورٹ کو مائنس کر دیا گیا ہے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔
قوم کو بھولنا نہیں چاہیے کہ آزاد عدلیہ پہ حملہ آور تمام قوتیں آپ کے حقوق کی دشمن ہیں اور جمہوریت پہ شب خون مارنے والی ان تمام جماعتوں کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا جنھوں نے غیر اعلانیہ مارشل لاء کو کندھا فراہم کیا ہے۔