Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Taqreer

Taqreer

تقریر

جب سے انسان کا ظہور اس دنیا میں ہوا، وہ گھر بنانے کی سعی میں لگاہے- جیسے جیسے تہذیب ترقی کرتی گئی، بے انتہاضرورتوں نے انسان کو دوسرے لوگوں پہ انحصار کرنے پر مجبور کیا- یوں قبیلوں کی بنیاد پڑی اور معاشروں نے جنم لیا۔ مذہب نے انسان کو معاشرے میں رہنے کی حدود و قیود سکھائیں اور اجتماعی سوچ نے جنم لیا۔ اس اجتماعیت، مذہبی حدود و قیود اور جہاں بانی کی خواہشات نے قوم اور وطن کی بنیاد ڈالی۔ انسان اپنے معاشرے میں اپنی پسند کے مذہب اور قوانین کے اندر زندگی گزارنے کا خواہشمند ہوا جہاں وہ اپنی مرضی کے ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گزارسکے۔

انہی ضابطہ حیات میں ایک اسلام ہے- مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی گئی جو پھیلتے پھیلتے ایک طرف تمام عرب، افریقہ، یورپ تک جا پہنچی جب کہ دوسری طر ف ایران، چائنہ، روس، افغانستان اور ہندوستان تک۔ ایسا عروج شائد ہی کسی مذہب نے دیکھا ہو مگر ہر عروج کو زوال ہے- ہم لوگ اپنے مذہب کی روح کو بھول گئے اور پھر خوب خوار ہوئے۔ اس زوال میں بھی کہیں کہیں دئیے جلتے رہے۔ اسلام ترو تازہ ہوتا رہا- کبھی کہیں صلاح الدین ایوبی نے مسلمانوں کی مشعل اٹھائ تو کبھی محمود غزنوی اپنی تلوار کا لوہا منواتا رہا تاہم اجتماعیت نہ ہونے کے باعث ہم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئے۔

ہندوستان میں مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی- محمد بن قاسم نے جو روشنی یہاں پہنچائی وہ صدیوں جگمگاتی رہی لیکن پھر یوں ہواکہ ہم اپنے آپ سے لڑنے لگے۔ انگریز قوم نے قدم جمائے، ہندو نے چاپلوسی کی اور مسلمان ہندوستان میں تیسرے درجے کے شہری بن گئے۔ زلت کا یہ سفر بھی صدیوں پہ محیط ہے- مصائب نے مسلمانانِ ہندوستان کو ایک نقطے پہ متفق کردیا

"لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان"

اور جب مسلمان اتفاق کرجائیں تو پھر اس کام کی تکمیل کو بھلا کون روک سکتا ہے؟

پاکستان بن گیا۔

یہ ریاستِ مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پر بنائی گئی۔ یہ اس ملک کی فوقیت ہے۔ تاریخ میں اور کوئی ملک اسلام کے نام سے وجود میں نہیں آیا۔ بانیِ پاکستان نے کہاکہ یہ اسلام کی تجربہ گاہ ہے۔ یہاں اپنے ضابطہ حیات کو رائج کریں گے اور دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کریں گے۔

آج پاکستان بنے 67سال ہو چلے- پاکستان کی تیسری نسل جوان ہو چکی ہے اور اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیا رہے لیکن ہم ابھی اپنے بنیادی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہمارا سفر نا گہانی آفت کا شکار رہا۔ ایک اذلی دشمن تو معرض وجود میں آتے ہی موجود تھا لیکن ہمارے اندر بھی دشمن وقتافوقتا جنم لیتے رہے- پھر بھی یہ سفر جاری ہے۔ مصا ئب ہیں پر مایوسی نہیں ہے۔ بہت ناکامیا ں ہوئیں لیکن آپ ان سے سبق سیکھیں تو یہ کامیاب تجربات کہلاتی ہیں - کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں پر ہم نے ان پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ ان سے آگے بڑھنا ہے۔ آج تک ہمارے بزرگوں نے مشکل حالات میں اس ملک کو یہاں تک پہچایا ہے۔ یہ راستہ بہت کٹھن تھا- انہوں نے اس نو زایئدہ اور کمزور سے ملک کو سازشوں کے درمیان سنبھالے رکھا۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے، ان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے اور جو کمزورویاں رہ گئی ہیں ان کی درستگی کرنی چاہیے-

آج کے نوجوان، جن کے کاندھوں پہ اس ملک کی ذمہ داری آچکی ہے، انہیں معلوم ہے کہ آج ہم سائبر ایرا میں داخل ہوچکے ہیں - آج ملک ایک فوجی بھیجے بغیر دوسرے ملکوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ میڈیا ماس ڈسٹکرشن کا ایک ہتھیار بن چکا ہے- ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں ابھی بہت تیز چلنے، اپنے عز م کو جوان رکھنا ہے اور اس پہ بھروسہ کرنا ہے- بہت بڑی زمہ داریاں آن پڑی ہیں - اس نسلِ نو پہ دشمن کا حملہ شدید ترین ہےاور اس کی نیت اسے مٹا دینے کی ہے۔ تہذیبوں کی اس جنگ میں نشانہ یہی نسلِ نو ہے اور ہماری امید بھی یہی نسلِ نو ہے۔ انہوں نے ان اوچھے حملوں سے محفوظ بھی رہنا ہے اور ہمارے بزرگوں کی امیدوں پہ پورا بھی اترنا ہے سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے لیے راستہ بھی تلا ش کرنا ہے۔

روس کی تنزلی کے بعد مغرب کے سامنے سب سے بڑا دشمن اسلام رہ گیا ہے۔ اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ قرار دیا جا چکا ہے اور دشمن بہت پہلے سے اس کی تیاری کر چکاہے- اب تو عملی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان ان کاایک اہم نشانہ ہے کیونکہ یہ اسلام کے نام پہ بنا- ہم بھلے کمزور مسلمان ہوں پر اسلام کا قلعہ ہونے کا بوجھ ہم نے خوشی سے اٹھایا- اب ہمیں اس کا پاس رکھنا ہے اور ان کی ہر سازش کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے ہمیں نشانے پہ رکھ لیا تو کیا ہوا، ہم اتنے بھی کمزور نہیں۔ آج اگر اس نسل کو بزرگوں نے کوئی بہت مضبوط پاکستان نہیں دیا، یا ایک مشکلات میں گھرا پاکستان دیا تو ساتھ میں یہی فخر بھی دیا کہ ہم دنیا کے 200سے زائد ممالک میں سے ان کے 7ملکوں میں شامل ہیں جو نیوکلیئر پاور کہلاتے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں - ہماری مشکلات دیکھیں، ہماری تکلیفیں اور رکاوٹیں دیکھیں، دشمن کی سازش دیکھیں اور پھر سوچیں کہ کیا آج ہم سر بلند کرکے یہ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ کوئی ہم سے سیدھا ٹکرانے کی ہمت نہیں کر سکتا؟ بیشک، ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش کا منہ توڑ جواب دیں۔

تاریخ گوا ہ ہے کہ مسلمانوں کو ہرانے کا سب سے آزمودہ نسخہ ہے سازش اور یہی حربہ ایک دفعہ پھر آزمایا جا رہاہے۔ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا زور ہے- ہماری صفوں میں دشمن گھس چکے ہیں۔ حتی کہ پہچان ہی مٹ گئی ہے کہ دشمن کون اور دوست کون اور یہی دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دشمن کی نشاندھی کریں، اس پہ غور فکر کریں اور ایک کلیئر مائنڈ کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف نکل پڑیں۔ نوجوانوں کو ان سازشوں سے آگاہی ہونی چاہیے۔ ان پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کا پردہ چاک کریں اور اپنے دشمن کو اس غبار میں سے الگ کرکے پہچانیں۔ اس جنگ کا نصف صرف اسی ادراک، اسی پہچان پہ منحصر ہے۔

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

By Syed Mehdi Bukhari