Badesi Mujahid, Plasi, June 1757 (4)
بدیسی مجاہد - پلاسی - جون 1757 (4)
"جین لاء ڈی لارسٹن" فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ہندوستان میں لڑنے آیا تھا۔ یہ اپنے چند وفاداروں کے ساتھ ہندوستانی فوجوں سے ملکر انگریز کے خلاف لڑتا رہا۔ ہندوستانی فوجیوں کی ٹریننگ کرتا رہا۔ اس کا خاندان اس کے انکل جان ڈی لارسٹن کی قیادت سکاٹ لینڈ سے فرانس ہجرت کرکے گیا تھا۔ جین لاء ایک سچا اور بہادر سپاہی تھا۔ جس نے مختلف جنگوں میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ اس کے نام سے منسوب "لازپت" ایک گاوں آج بھی ہندوستان میں موجودہے جو اس کی بہادری اور ہندوستانی کے رہنے والوں کی طرف سے اس سے محبت کا ثبوت ہے۔۔
***
"یہ آخری دفعہ نہیں تھی، جب میں میدان جنگ سے بھاگا۔ چندرنگر کے بعد پلاسی"، جین کی آواز میں ایک کرب تھا۔
"شکست کا احساس، دیمک کی طرح ہوتا ہے۔ اور یہ دیمک مجھے اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے"۔
"پلاسی سے میں کبھی نہ بھاگتا، اگر نواب اپنے قدموں پر کھڑا رہتا۔ ہم وہ جنگ جیت تقریبا جیت چکے تھے۔ لیکن نواب سراج الدولہ نے ہمت ہار دی۔ اور مجبورا ہمیں بھی اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ شائد میں ایک بزدل کی خاطر جان قربان کرنے کے لیے تیار نہیں تھا"۔ جین لاء کی آنکھوں میں پلاسی کا میدان تھا۔
"تاریخ کے پنوں پر صرف یہ لکھا جائے گا کہ سراج الدولہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا یا اسے شکست ہوگئی۔ لیکن میرے صفحہ حیات پہ موٹے موٹے لفظوں میں گڑا ہوا ہے "جین لاء بھگوڑا ہے" اسے اپنی جان اپنی عزت سے زیادہ پیاری ہے، اور میں ان لفظوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہوں، زندگی بوجھ بن چکی ہے"۔
جین لاء نے مغل بادشاہ شاہ عالم کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ شاہ عالم مغل سلطنت کی آخری نشانی تھی اور امید تھی۔ مغل حکومت کی شان و شوکت بحال کرنے کے لیے وہ دربدر تھا۔ ان کی حکومت دلی تک محدود تھی۔ مغل بادشاہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی تھی۔ شاہ عالم مغلوں کے اقتدار اور اختیار کے لیے لڑ رہا تھا۔ لیکن اسے پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہیلسا کے مقام پر کل اس کا سامنا بنگال کے نواب میر جعفر سے تھا۔ کل کا دن شاہ عالم کی تقدیر بدل سکتا تھا۔
جب سے جین لاء اس کے ساتھ ملا تھا۔ اسے امید لگ گئی تھی کہ وہ انگریز کا توڑ کر سکتا ہے۔ اسے انگریز کے مقابلے میں جدید ہتھیار اور جدید جنگی حکمت عملی سے لیس فرانسیسی اور دیسی سپاہیوں پہ مشتمل ایک فوج میسر آ گئی تھی۔ جن کا نظم وضبط اور پیشہ وارانہ صلاحیتیں انگریز فوج سے بھی بہتر تھیں۔ شاہ عالم کو امید تھی کہ تخت دلی پہ واپسی میں بنگال کی فتح پہلا قدم ہوگی۔ اور اس فتح میں جین لاء اس کے 100 فرانسیسی اور 200 ہندوستانی سپاہیوں کے علاوہ 10 توپوں کا اہم کردار ہوگا۔
جین نے پلاسی کا میدان چھوڑنے کے بعد چار سال گنگا اور جمنا کے درمیانی علاقے میں خانہ بدوشوں کی طرح گزارے تھے۔ اس دوران وہ کبھی بھی فوجی تربیت سے غافل نہیں ہوا تھا۔ گوٹھالی میں جب وہ پہلی دفعہ شاہ عالم سے ملا تو اس کی فوج میں 200 ہندوستانی سپاہی بھی شامل ہو چکے تھے۔ جن کی صلاحیتیں کسی طور بھی انگریز سپاہیوں سے کم نہیں تھیں۔ ان چار سالوں کی تپسیا نے اس کے فرانسیسی سپاہیوں کو فولاد کر دیا تھا۔ جنگلوں بیانانوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ موسم سے واقف ہو چکے تھے اور راستوں سے بھی۔ ان کے لیے ماحول نیا نہیں رہا تھا۔ بدیسی سپاہیوں کے لیے، چاہے وہ انگریز ہوں یا فرانسیسی ہندوستان کا گرم موسم سب سے بڑا امتحان تھا۔ وہ لوگ اس دم گھٹنے والی گرمی کے عادی نہیں تھے۔ لیکن جین کی چھوٹی سی فوج نے چار سالوں میں اس ماحول میں رہنا سیکھ لیا تھا۔
مغلیہ خاندان کے عظمت کے قائل بہت سے نواب اور سردار، شاہ عالم کی صورت میں تخت دلی کی بحالی کی امید پہ اس کے گرد اکٹھے ہوئے تھے۔ شاہ عالم کے پاس ایک بہت بڑی فوج اکٹھی ہوگئی تھی۔ مگر اس کے پاس کمی تھی تو ایک جدید ہتھیاروں اور جدید انداز جنگ کی۔ جین لاء کے تجربے اور اس کے فوجی دستے نے شاہ عالم کی فوج میں موجود اس کمی کو دور کر دیا تھا۔ جین لاء کے دستے کی تعداد تو کم تھی لیکن ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور لڑنے کے جذبے نے شاہ عالم کو بہت متاثر کیا تھا۔ اور اسے قوی امید تھی کہ میر جعفر میں موجود انگریز فوج کے لیے اب جنگ اتنی آسان نہیں رہی تھی۔ شاہ عالم کو تخت دلی کا خواب حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا۔
"آپ کمال کے فوجی ہو، اللہ نے آپ کو خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ آپ دلی میں میری فوج کی تربیت اسی جدید انداز میں کرکے اس کو ایک ناقابل شکست طاقت میں بدل دیں۔ ہم آپ کو ہیرے جواہرات سے تولیں گے۔ پورے ہندوستان میں آپ کے مجسمے لگیں گے اور آپ کو جدید ہندوستان کا بانی کہا جائے گا"، شاہ عالم نے مستقبل کی تصویر کشی کی کوشش کی۔ جین لاء کا لگا جیسے وہ اس کو لبھانے کی بجائے خود کو خوش کر رہا تھا۔
جین لاء کے چہرے پر کوئی تاثرات نہ تھے۔ وہ سر جھکائے گہری سوچ میں گم تھا۔ وقت نہایت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ کافی دیر تک خاموشی رہی۔ سکوت طاری تھا۔ جنگ سے پہلے والی رات میں ایک اداسی تھی، بے یقینی کی کیفیت۔ رات کے اس سکوت میں ایک بے چینی تھی جو جنگ میں جانے والا سپاہی محسوس کر رہا تھا۔
"جب نواب سراج الدولہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے، تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مدد کرنے کا شکریہ ادا کیا اور اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ وہ در حقیقت دعوت نہیں درخواست تھی، حفاظت کی درخواست۔ ان کو لگتا تھا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کی بہتر حفاظت کر سکتا ہوں۔ ہمارے ساتھ وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے تھے۔ لیکن میں اپنے کسی ایک وفادار کی ایک بوند بھی کسی بزدل کے لیے بہانے کو تیار نہیں تھا"۔ جین سر جھکائے بولے جا رہا تھا۔
"بادشاہ سلامت، آپ کو پتہ ہے میں اور میرے ساتھی اس بدیسی زمین پر کیوں ہیں۔ ہم واپس اپنے وطن کیوں نہیں گئے حالانکہ ہمارے پاس ایک سے زیادہ دفعہ یہ موقع بھی تھا"۔ جین لاء نے شاہ عالم پہ سوال داغ دیا۔
کیونکہ انہون نے شکست خوردہ اور بھگوڑے کی حیثیت سے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔