Up To Date Intiqam
اپ ٹو ڈیٹ انتقام
آپ تاریخ کا انتقام ملاحظہ کریں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی تو خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بن گئے۔ راولپنڈی میں لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کیاگیا تو انہوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے ساز باز شروع کر دی، تقدیر نے ساتھ دیا اور وہ وزیر اعظم بن گئے۔ غلام محمد کو ان کی جگہ گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ غلام محمدگورنری ملنے کے بعد "بادشاہ"بن گئے اور انہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر نے کا فیصلہ کر لیا۔
خواجہ صاحب جمعہ کی نماز کے لئے جا رہے تھے جب قاصد نے انہیں ان کی برطرفی کی خبر سنائی، وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔ بعد میں گورنر جنرل سے آمنا سامنا ہوا تو خواجہ صاحب نے شکوہ کیا:"سر!جب میں گورنر جنرل تھا اور لیاقت علی وزیراعظم تو میں نے تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ "غلام محمدنے بڑی حقارت سے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور بولے:"تم لیاقت علی خان ہو اور نا میں خواجہ ناظم الدین۔ " اس کے بعد خواجہ ناظم الدین کبھی وزیراعظم ہاؤس نظر نہیں آئے۔
گورنر جنرل غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا، کچھ ہی عرصہ بعد غلام محمد بیمار ہوئے اور ان کے نامزد وزیر اعظم نے انہیں دو ماہ کی رخصت پر بھیج کر ان کے سیاسی کردار کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔ غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنادیا گیا، اسکندر مرزا نے اقتدار کو دوام دینے کے لئے مختلف حیلے بہانے شروع کر دیے۔ اس کا ایک حل انہوں نے یہ نکالا کہ ایوب خان کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، ایوب خان نے صرف تین دن بعد اسکندر مرزا کو ایوان اقتدار سے رخصت کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ اسکندر مرزا ایوان اقتدار سے بڑی خاموشی اور بے بسی سے نکلے اور بقیہ عمر لندن کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گزار دی۔
ایوب خان نے پورے دس سال بھرپور کمانڈ اور طنطنے کے ساتھ اس ملک پر حکومت کی، دس سال انہوں نے سیاست دانوں کے ناک میں دم کئے رکھا۔ ایوب خان کی کابینہ کے ایک وزیر ذوالفقار علی بھٹو ابھرتے ہوئے نوجوان اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے، ایوب خان کو یہ نوجوان پسند آ گیا اور انہوں نے اسے "سیاسی متبنیٰ"بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ بعد میں یہی بھٹو تھے جنہوں نے معاہدہ تاشقند کے بعد "ایوب۔۔ ہائے ہائے"کے نعرے لگوائے۔ اپنے اقتدار کے سورج کو غروب ہوتا دیکھ کر ایوب خان نے اپنے اختیارات تین ماہ کے لئے یحییٰ خان کو سونپ دیئے۔
یحییٰ خان نے تین ماہ کے بجائے مستقل اقتدار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایوب خان سے استعفیٰ لے کر اسے ایوان اقتدار سے رخصت کر دیا۔ ایوب خان کی گاڑی ایوان صدر سے نکلی تو وہ بار بار پیچھے پلٹ کر ایوان صدر کی طرف دیکھتے اور اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتے تھے۔ ان کی گاڑی کے ساتھ سوائے دو سکیورٹی گارڈزکے اور کوئی نا تھا اور وہ ایوان صدر سے نکل کر سوات کی پہاڑیوں میں گم ہو گئے۔
بھٹونے ضیاء الحق کو اس لیے آرمی چیف بنایا تھا کہ وہ اس کی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور بھٹو کو یقین تھا کہ وہ اس کے ساتھ غداری نہیں کریں گے۔ مگر بھٹو نے جس ضیاء کو آرمی چیف بنایا تھا اسی ضیا نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ تاریخ کا خوفناک انتقام نوے کی دہائی کے بعد شروع ہوتا ہے، نوازشریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے کر اور سینئر جنرل علی قلی خان کو نظر انداز کرکے پرویزمشرف کو آرمی چیف بنا یا تھااور کچھ ہی عرصے بعد وہی پرویزمشرف نواز شریف کے زوال کا پیغام لایا۔
12 اکتوبر1999میں جس پرویز مشرف کے طیارے کو نوازشریف نے کراچی ایئر پورٹ پر اترنے سے منع کیا تھا اسی پرویز مشرف نے 10ستمبر2007کو نواز شریف کے طیارے کو اسلام آبادنہ اترنے دیا اور اسے واپس جدہ بھیج دیا۔ ٹھیک ایک سال بعد نواز شریف پاکستا ن آچکے تھے اور انہیں روکنے والا پرویز مشرف ملک سے بھاگنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
وہی پرویز مشرف جو دس سال اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، جس نے دو بار آئین توڑا، عدلیہ کے تقدس کو پامال کیا، ججز کو نظر بند کیا، لال مسجد میں سیکڑوں افراد اوراکبر بگٹی کو شہید کرایا، اسلامی شعائر کی توہین کی، عافیہ سمیت سیکڑوں افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا، ملک کو سیکولر سٹیٹ بنانے کی بھرپور کوشش کی، حدوداللہ کو ختم کیا، میڈیا اور پریس پر پابندیا ں لگائی، امریکہ کو اڈے دیے، ڈرون حملوں کی اجازت دی، روشن خیالی کے نام پر فحاشی و عریانی کو فروغ دیا، ملک میں لوڈشیڈنگ کے عفریت کو جنم دیا اورقوم کو خود کش حملوں کا تحفہ دیا۔
دس سال بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے پرویز مشرف صاحب ٹھیک ایک سال بعد ملک سے بھاگنے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ آج یہ پرویز مشرف صاحب کس اذیت، تکلیف اور کرب میں مبتلا ہیں اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ یہ ایمائلوڈوسس بیماری کا شکار ہیں اور یہ ایسی بیماری ہے جو دنیا میں بہت کم افراد کو ہوتی ہے اور ابھی تک اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ یہ بات کر سکتے ہیں، اٹھ کر بیٹھ سکتے ہیں، ہاتھ ہلا سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کھا پی سکتے ہیں۔ ان کی جلد اور ہڈیاں الگ ہو چکی ہیں، ہڈیوں نے گوشت کو چھوڑ دیا اور اسکن کھال کی طرح بالکل علیحدہ کی جا سکتی ہے۔
ان کے گردے، پھیپھڑے بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں، یہ اٹھنا اور بیٹھنا تو دور کی بات بول تک نہیں سکتے۔ بولنے کے لیے بہت کم انرجی درکار ہوتی ہے مگر یہ اتنی انرجی بھی اپنے اندر نہیں رکھتے۔ پہلے یہ ہفتے میں دو دن ہسپتال میں گزارتے تھے مگر اب یہ مستقل طور پر ہسپتال کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ گھر نہیں آ سکتے، یہ کسی سے بات نہیں کر سکتے، یہ با ت کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دیتے اور یہ اشاروں سے بھی کوئی بات نہیں کر سکتے کیونکہ اشاروں کے لیے بھی کم از کم آپ کو ہاتھ اٹھانا پڑتے ہیں مگر یہ ہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔
آپ تاریخ کا اپ ٹو ڈیٹ انتقام ملاحظہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ عمران خان کو دیکھ لیں، پچھلے تین چار سال عمران خان کی زندگی کے شاندار سال تھے، یہ ملک کے سب سے خوش قسمت اور لاڈلے وزیر اعظم تھے، ریاست کے معروف ستونوں کے علاوہ غیر معروف ستون بھی انہیں اقتدار دلانے میں پیش پیش تھے۔ یہ ستون اقتدار دلانے کے بعد بھی بدستور قائم رہے اور انہوں نے عمران خان کے اقتدار کے محل کو ہر طرح کا سہارا فراہم کیا مگر ایک نااہل کو کرسی پر بٹھایا تو جا سکتا ہے مگر اسے چلایا نہیں جا سکتا۔
عمران خان نے پچھلے تین چار سال میں مخالفین پر ہر طرح کے مقدمات قائم کیے، اداروں کے سربراہوں کو بغاوت کے مقدمات قائم کرنے پر مجبور کیا گیا مگر صرف چار سال بعد وہی عمران خان خود بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ یہ بیک وقت کئی کئی کیسز میں نامزد ہیں اور انہیں ہر دوسرے دن عدالت کے چکر لگانا پڑ رہے ہیں۔ یہ چھٹی کے دن بھی عدالت چلے جاتے ہیں اور یہ خالی کرسی سے بھی معذرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ ریڈر کو گواہ بنانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں اور یہ پوری قوم کے سامنے یہ الفاظ دہرانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ میں معافی مانگنے آیا تھا۔
یہ پیشیاں بھگت بھگت کر تھک چکے ہیں، یہ اندر سے ٹوٹ چکے ہیں، انہیں اپنے لوگوں پر بھی اعتبار نہیں رہا اور یہ اب سر عام ان سے حلف لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ اگر اب بھی اپنی انتشارکی سیاست سے باز نہ آئے تو یہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے آؤٹ ہو جائیں گے۔ یہ تاریخ کا وہ انتقام ہے جو ہر دور اورہر صاحب اقتدار کے ساتھ جا ری رہا ہے اور یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی۔