Qurbani
قربانی

اب کے ہم بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
لمحہ مفارقت ہمیشہ سے ایک کھٹن مرحلہ رہا ہے۔ اب وہ ایک نوجوان بیٹے، بھائی یا ایک باپ کی دوسرے شہر یا ملک میں ملازمت کے سلسلے میں گھر والوں کو الوداع ہو۔ رُخصتی کے وقت ایک بیٹی کا اپنے والدین کو الوداع ہو۔ سب سے کھٹن جُدائی جب کوئی اس جہانِ فانی کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کرتا ہے۔
وقت اس مشکل کو ختم کر دیتا ہے اور نئے لوگ پرانے لوگوں کی جگہ لینا شروع کر دیتے ہیں اگرچہ اس میں وقت لگتا ہے پر یہی دستور ہے یہی حقیقت ہے۔ جب کوئی شخص گھر کو چھوڑ کر دوسرے شہر یا پردیس اپنوں سے دور ٹھکانہ آباد کرتا ہے تو اسے اپنوں کا پیار، عزیز و اقارب، ثقافت، احساسات، صحت، زندگی کا سب سے قیمتی وقت قربان کرنا پڑتا ہے۔
جب ایک جوان بیٹی دلہن بنتی ہے تو اپنے گھر کا لاڈ پیار، ناز و نخرے، آزادی ماں باپ کی شفقت یہ سب قربان کرتی ہے ایک نئے گھر کے لیے اور یہ ایسی مفارقت ہے کہ جس میں آپ کو آبائی گھر کی ملکیت کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کرنا پڑتا اس کے بعد بیٹی جب بھی ماں باپ کے گھر آتی وہ بطور مہمان آتی ہے اور مہمان مالک نہیں ہوتے۔
جب کسی شخص کا اس جہان فانی سے کوچ کا وقت آتا ہے تو اس کو محض ایک گھر نہیں، بیوی بچے ماں باپ نہیں بلکہ دوست رشتہ دار، حتٰی کہ دنیا کی ہر شے کو الوداع کرنا پڑتا اور اوپر کیے گئے ذکر میں جدائی کے وقت کہیں نہ کہیں آپ کی مرضی، رائے بھی ضرور شامل ہوتی ہے لیکن پیدائش اور موت ایسی حقیقت ہے کہ جس میں ہماری مرضی شامل نہیں ہوتی۔ فرق اتنا ہے کہ پیدائش ملاپ ہے اور موت جدائی۔ اسی وجہ سے یہ سب سے کھٹن علیحدگی ہے جس میں جان قربان کرنی پڑتی ہے۔
ہمارے نظام میں قربانی کا تصور صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ فطری ہے اس کے بغیر نظام نہیں چل سکتا۔ ذیل میں بیان کی گئی امثال کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ قربانی ایک عزیم جذبے کا نام ہے جس کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
تمام انبیائے کرام، اصحاب نے اپنی زندگیوں میں مختلف طرح کی قربانیاں دی۔ انکی زنگیاں دین کے لیے وقف تھیں ہم ان قربانیوں کا آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔
61 ہجری میں انسانی تاریخ میں قربانی کا سب سے بڑا نادر اور غیر معمولی واقعہ پیش آیا جس میں اس کائنات کے سب سے عظیم گھرانے کے چشم و چراغ نے دین اسلام کی بقا کی خاطر، حق کی سر بلندی کی خاطر، اپنا جان و مال حتٰی کہ اپنا پورا خاندان بشمول اصحاب سب کو قربان کر دیا۔
اہل علم اس اصول سے آگاہ ہوں گے کہ عید قرباں پر ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر یہاں تک احتیاط کرتے ہیں کہ قربان ہونے والے جانور کی آواز بھی دوسرے کے کانوں میں نہ پڑے کیونکہ موت کا تصور بھی باعث تکلیف ہوتا ہے۔ قربان جاوں ان عظیم ہستیوں پر سب آل اولاد اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کر دیے پر حق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان ہستیوں کی عظیم قربانیوں کی تعریف ہم جیسی گناہگار زبانیں کیا کریں گی بس جتنی توفیق حاصل ہو جائے، الحمدللہ۔
واصف علی واصف لکھتے ہیں کہ موت کسی ایک دن کا نام نہیں موت زندگی کا نام ہے اور ہم لوگ موت کو خاتمہ سمجھ لیتے ہیں صدیاں گزر گئیں پر ہمارے حسین آج بھی زندہ ہیں۔ حسینیت زندہ ہے۔
حضرت عمر کے بعد ایک وقت آیا جب قبلہ اول دوبارہ صلیبیوں کے قبضے میں گیا تو صلاح الدین ایوبی کو چین نہیں پڑتا تھا یہاں تک کہ چہرے پر جلال اور تمانت کے کوئی آسار نظر نہیں اور کبھی مسکراتے نہیں تھے۔ کسی نے جمعے کے خطبے کے بعد وجہ طلب کی تو صلاح الدین نے تاریخی جملے کہے کہ قبلہ اول صلیبیوں کے قبضے میں ہے تو صلاح الدین کیسے مسکرا سکتا ہے۔ اس مرد مجاہد نے ساری زندگی اسی مقصد کے حصول کے لیے قربان کر دی تھی۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ قبلہ اول دوسری مرتبہ صلاح الدین کی قیادت میں فتح ہوا۔ وقت نے کروٹ لی، اخلاقی برائیوں نے جنم لیا، مسلمان کمزور ہوئے اور ایک بار پھر بیت المقدس ہم سے چھِن گیا۔ آج تقریباََ 100 سال ہونے کو ہیں اور ہم 57 اسلامی ریاستیں ہونے کے باوجود بیت المقدس کو ایک چھوٹی سی نا جائز ریاست سے آزاد نہ کرا سکے۔
فلسطین کا سفیر یونایٹڈ نیشن کے اجلاس میں سسک سسک کر یہ کہہ رہا تھا کہ کوئی یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اسکے بچے اسکے سامنے مار دیے جائیں۔
میرے بھی پوتے ہیں انکی کیا ضروریات ہیں اور انکی کیا اہمیت ہوتی ہے یہ ہم جانتے ہیں ادھر ان معصوموں کی بنیادی ضروریات تو دور بلکہ آگ کے شعلوں میں جھلستی لاشیں، کئی کئی دن کے فاقے اور 57 اسلامی ممالک خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کیا ان لاکھوں فلسطینی مردوں عورتوں اور بچوں کی قربانی رائیگاں چلی جائے گی؟
رسم ابراہیمی کی مخالفت کرنے والے نادان ہیں جانور کی قربان حکم خداوندی ہے اور اس میں بہت برکتیں، مصلحتیں، راز، حکمتیں پوشیدہ ہیں لیکن قربانی محض جانور کی گردن پر چھڑی چلا دینے کا نام نہیں۔ ہر انسان کے اندر ایک مصر بستا ہے۔ ایک تخت دو کردار۔ ایک موسی، دوسرا فرعون۔ یہ دو کردار ایک ہی جسم میں بستے ہیں لیکن ایک دل میں دونوں کو جگہ نہیں ملتی۔
موسی اندر کی وہ روشنی ہے جو اللہ سے جڑنے کی جستجو رکھتی ہے۔ وہ فطری، سچائی، عاجزی، دعا اور بندگی کی علامت ہے۔
فرعون نفس امارہ کی بلند آواز ہے۔ یہ تکبر، خود پسندی، دنیا پرستی اور انانیت کی علامت ہے۔
انسان جب اندر کے موسی کو قربان کر دیتا ہے تو پھر کوئی ہارون نہیں آتا، کوئی دریا نہیں چڑتا، کوئی عصا اژدہا نہیں بنتا اور نہ ہی کوئی تجلی اترتی ہے۔
ہمیں فرعون کا قتل کرنا چاہیے، نفس کی قربانی دینی چاہیے، انا کو الوداع کہنا چاہیے پھر دنیا دیکھتی ہے کہ طاقت کے سمندر کو صرف عاجزی پار کرتی ہے غرور نہیں۔ پھر تجلیات جلوہ افروز ہوتی ہیں پھر روشنی نصیب ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
ڈھونڈ الجھے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے ممکن ہے تجھے خرابوں میں ملے

