Ilm Baraye Farokht
علم برائے فروخت

آج کل صوفی ادب بہت چھپتا اور بِکتا ہے، لوگ پڑھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر دکانیں لگائے بے شمار لوگ بیٹھے ہیں لیکن ان کو سن کر کوئی صوفی نہیں بن سکتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ فضیل رضا کچھ ہوش کے ناخن لو تم کس زمانے میں صوفی بننے کی باتیں کر رہے ہو؟ آج کی نسل کس طرف جا رہی ہے اور تم کیا عجیب خیالی باتیں سجا رہے ہو۔ لوگ ترقی کا سوچتے ہیں اور اسی کو پسند کرتے ہیں جو بظاہر ترقی کر رہا ہو اور اسکے عمل و فکر سے بھی کمرشل پلاٹس اور اونچی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہوں۔ اس جدید دور میں تم بچوں کی تربیعت روایتی پرانے بابوں کی طرح نہیں کر سکتے آج کے بچے intellectual ہیں ان میں گیمنگ، وی لاگنگ، وڈیو گرافی کے سکلز پیدائشی موجود ہیں کیونکہ انکے ماں باپ انہی اوصاف کی مالک تھے یہ حصوصیات انہوں نے بطور شوق اپنائیں۔
بچی کچھی جو ادبی رسم رہ گئی اسکو سن 2000 سے قبل والی نسل ادا تو کر رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ انکا بھی گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ نتیجا یہی نکلنا تھا ایک آزاد نسل تیار ہو چکی ہے یعنی پروڈکٹ عین والدین کی منشا اور عمل کے مطابق تیار ہو رہی ہے۔
بات یہ ہے کہ صوفی بننے کے لئے علم کے ساتھ موقعہ پر ایک معلم ہونا چاہیے۔ کتابوں میں علم تو بزرگوں کا ہوتا ہے اور وہ خود اپنے آپ کا معلم بن جاتا ہے، اپنے ساتھ رعائتیں کرتا جاتا ہے اور دھوکہ کھا جاتا ہے۔ اگر کوئی معلم ساتھ کھڑا ہو تو وہ بتائے گا کہ اس فقرے کا مطلب یہ ہے اور یہ بات یوں ہے۔ تصوف کی کتابوں میں جو مشاہدات ہیں اور واقعات ہیں وہ اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن کوئی واقعات سمجھائے تو پھر سمجھ آتی ہے۔
ایک پیر صاحب تھے، انہوں نے اپنے بچے کو دینی تعلیم دینا شروع کی اور ڈھیر ساری کتابیں پڑھا دیں۔ پھر انہوں نے اسے اپنے خلیفے کے پاس بھیجا کہ اس کو فقیری کی تعلیم دو، ویسے جیسے میں نے تمہیں علم دیا تھا کیونکہ میں اس پر وہ سختی نہیں کر سکتا جو تم نے اس پر کرنی ہے۔ خیر تو وہ پیر زادہ وہاں گیا اور کہا میں تعلیم لینے کے لئے آیا ہوں اور مجھے ابا حضور نے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دروازے کے باہر کھڑے ہو کر انتظار کرو، میں نے تمہارا استقبال اس لئے کیا تھا کہ ہمارے پیر کا فرزند ہے اور اب تُو علم کا متلاشی ہے، اس لئے باہر جا کر انتظار کرو جیسا کہ ہم تمہارے والد صاحب کے پاس کیا کرتے تھے۔ تو اس طرح تعلیم شروع ہوگئی۔ جب تعلیم مکمل ہوگئی تو انہوں نے کہا میں نے پہلے ہی دن تمہارا غرور توڑ دیا تھا، وہ غرور جو تمہیں پیر زادہ ہونے کا تھا اور اس غرور کو توڑے بغیر علم نہیں ملتا۔ جتنے بھی اولیا اور صوفیا کرام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی تربیت ایسے ہی ہوئی ہے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ سختیاں برداشت کرنے کے بعد کسی مقام پر پہنچے۔
تو کتاب سے علم نہیں ملتا، معلم سے علم ملتا ہے۔ کتاب آپ کو معلوم کا پتہ دیتی ہے، علم دیتی ہے لیکن وارد کرنے والا ایک بندہ ہونا چاہیے۔ ورنہ تو آپ کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ صحیح علم کیا ہے اور غلط علم کیا ہے، دنیا میں تو علم ہی علم ہے۔ دنیا میں کیا سے کیا ہوتا جا رہا ہے؟ ہر وقت ہو رہا ہے۔ ہر چیز ہر وقت ہو رہی ہے، صبح ہو رہی ہے، شام ہو رہی ہے اور دنیا چلتی جا رہی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں آپ کا کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ آپ کا علم ہے۔ اس کے علاوه باقی جو ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے۔ لیکن جو نظر آ رہا ہے وہ بھی علم نہیں ہے کیونکہ وہ تو دوسرے کا ہے۔
جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ دوسرے کا علم ہے۔ جو آپ سن رہے ہیں یہ بھی دوسرے کا علم ہے۔ سنانے والا دوسرا بندہ ہے Second person اور Third parson، تو Real life کیا ہے؟ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ کام استاد مکمل کرتا ہے۔ یہ استاد علم کو آپ پر وارد کرتا ہے، صرف علم پڑھا نہیں دیتا۔ استاد کا کمال یا اعجاز یہی ہے کہ وہ علم کو وارد کر دے۔ مثلاً اگر کوئی "درد" پر ایک کتاب لکھ دے تو آپ کو درد کی سمجھ نہیں آ سکتی مگر آپ کا شیخ آپ کو محسوس کراتا ہے کہ یہ "درد"ہے۔ مثلاً پہلے تمہیں کوئی چیز دے دے گا اور پھر کہے گا کہ اس کو چھوڑ دو۔
محبوب بھی "درد" وارد کرتا ہے کہ پہلے وصال ہوتا ہے اور پھر فراق دے جاتا ہے۔ یہ محبوب کی ایک ادا ہے۔ دنیا میں محبت کے جتنے قصے ہیں وہ فراق کے قصے ہیں۔ رانجھا کہیں گیا اور ہیر کہیں اور گئی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ہیر، ہیر نہ ہوتی اور رانجھا، رانجھا نہ ہوتا۔ اگر دونوں کی شادی ہو جاتی تو مر جاتے اور غرق ہو جاتے۔ جدا ہو کے دونوں زندہ ہو گئے۔ جدائی نے رانجھے کو زمین سے آسمان کر دیا اور ہیر بھی زمین سے آسمان ہوگئی اور پھر دونوں کو وارث شاہؒ نے امر کر دیا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے وارث شاہؒ کو زندہ کر دیا۔ بس دونوں باتیں ٹھیک ہیں۔۔
تو صوفیاء نے فراق کی داستان کو زندگی کی داستان بنا دیا۔ اسی طرح شہزاده سیف الملوک ایک پری بدیع الجمال کی تلاش میں نکل پڑا۔ میاں محمد صاحبؒ کے پاس جب یہ واقعہ آیا تو انہوں نے کیا سے کیا بنا دیا۔ سیف الملوک کا قصہ بِن دیکھے کی محبت کا قصہ ہے کیونکہ وہ جس محبوب کی تلاش میں نکلا اسے دیکھا ہوا نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ بِن دیکھے کی محبت دیکھے ہوئے کی محبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ہم سب نے بھی تو خدا کو نہیں دیکھا اس کے محبوب جنابِ محمد مصطفیٰ ﷺکو نہیں دیکھا پھر بھی بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ تو میاں محمد بخشؒ نے آپ پر یہ داستان وارد کر دی۔
استاد اس لئے ضروری ہے کہ وہ آپ پر واقعہ وارد کر دیتا ہے۔ آپ زندگی کو کتابوں سے ڈھونڈ رہے ہو بلکہ آج کے دور میں کتاب بھی دور کی بات آج لوگ سوشل میڈیا میں زندگی ڈھونڈ رہے ہیں اور زندگی آپ کے دروازے کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ زندگی گھر کے پاس سے گزر جاتی ہے یا گھر کے اندر سے روٹھ کے چلی جاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ آپ کتاب میں مگن ہوں، کتاب سے زندگی تلاش کرتے رہیں، سوشل میڈیا میں تلاش کرتے رہیں اور زندہ بندوں کو ناراض کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے گھر میں زندہ بندے آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں اور آپ کتابیں پڑھتے جا رہے ہوں آپ موبائل فون استعمال کرتے رہیں۔
اللہ آپ کو فرعون کی زندگی نہ دے اور فرعون کا مزاج نہ دے۔ آپ اس ساتھی کی قدر کرو جو آپ کے لئے لاکھوں میں ایک ہے بلکہ کروڑوں میں ایک ہے اور اس کا مقدر دیکھو کتنا خراب ہے کہ آپ جیسا آدمی اُسے ملا۔ تو آپ خوش رہا کرو اور اس پر بھی خوشی وارد کرو۔ تب مالک کریم بھی آپ سے خوش ہوں گے۔ خوشی اس طرح وارد کرو جس طرح استاد علم وارد کرتا ہے۔ استاد آپ کو اصحابِ کہف کا قصہ سنائے گا کہ اس طرح غار میں لوگ مردہ پڑے رہے۔ یہ غار قبر ہی تو تھی۔ پھر کچھ عرصہ بعد لوگ زندہ ہو گئے۔ یہ قصہ سنا کر وہ آپ سے کہے گا کہ تمہارے پاس روز ہی یہ واقعہ ہوتا ہے۔ تم ماں کے رحم میں قبر کی طرح مردہ تھے، پھر زندہ نکالے گئے۔ روزانہ سو جاتے ہو تو نیند میں مرے ہوتے ہو، پھر جگا کر زندہ کر دیے جاتے ہو۔ موت سے زندگی اور زندگی سے موت، روزانہ ہی یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔
مرغی سے انڈہ اور انڈے سے مرغی روز ہی دیکھتے ہو۔ اس لیے اللہ کو پہچانو۔ غرور کو نکال دو۔ انسانوں کی قدر کرو۔ اپنے ساتھی کی قدر کرو۔ اس دور میں ہر شخص خود کو استاد سمجھتا ہے کوئی کسی معلم کسی شیخ کے پاس جانے کو تیار ہی نہیں کسی کو علم کی ضرورت ہی نہیں ہم اتنے آزاد خیال ہو گئے ہیں کہ سوائے موت کے ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں۔ ہم ترقی کر رہے ہیں ہم ترقی پسند ہیں ہم اپنی موت کا سامان اگھٹا کر رہے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔ جو شخص ساری زندگی جو کام کرتا رہے وہ دوسرے پر بھی وہی وارد کر سکتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ سوشل میڈیا کی پیداوار نام نہاد وی لاگر آپ پر علم دین وارد کر سکیں آپ پر علم تصوف وارد کر سکیں۔ یہ علوم یہ تربیت صرف وہی کر سکتا ہے جو خود صاحب علم و ادب، صاحب نظر، صاحب کشف، صاحب عرفان ہو جس کی ساری زندگی دین کی خدمت میں گزری ہو۔ دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں اپنے دوستوں کی صحبت نصیب فرمائے۔

